Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ سیاستدان جن کی سیاست 2024 کے انتخابات نے ختم کر دی

نواز شریف الیکشن جیتنے کے باوجود انتخابی سیاست سے دور ہو رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے اور نہ کرنے کی بحث تو ابھی جاری ہے اور ہارنے والے بیشتر امیدوار دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں لیکن کئی سیاستدان ایسے بھی ہیں جن کا سیاسی کیرئیر ان انتخابات کے نتائج کے بعد ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اگرچہ بہت سے صف اول کے سیاستدان ان انتخابات میں شکست کے بعد سیاست سے باہر ہوتے نظر آ رہے ہیں اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ کبھی پارلیمانی نظام میں واپس نہیں آ سکیں گے لیکن مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف ایسے رہنما ہیں جو الیکشن جیتنے کے باوجود مستقبل کی انتخابی سیاست سے دور ہو رہے ہیں اور سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وہ تمام اختیارات اپنے بھائی اور بیٹی کو سونپ کر بتدریج پارلیمانی سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں گے۔
انتخابات سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ نواز شریف بھاری اکثریت حاصل کر کے چوتھی مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوں گے۔ یہاں تک کہ ان کی جماعت نے انتخابات سے ایک روز پہلے تمام قومی اخبارات میں ’وزیراعظم نواز شریف‘ کے اشتہارات بھی چھپوا دیے تھے لیکن انتخابات کے نتائج آنے کے بعد نواز شریف پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے شہباز شریف کو اپنی جگہ پر وزیراعظم اور مریم نواز کو وزیراعلٰی پنجاب نامزد کر دیا۔
ان کے اس فیصلے کے بعد ان کی جماعت کے قریبی حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ اب نواز شریف عہدوں سے دور رہ کر اپنے بھائی، بیٹی اور پارٹی کی رہنمائی کریں گے اور ممکن ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں حصہ نہ لیں۔
 عمران خان
آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں عمران خان جیل میں تھے اور کئی مقدمات میں ملنے والی سزائے قید گزار رہے تھے جس کی وجہ سے وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے۔ ان کی جماعت پر امید ہے کہ انتخابات میں ان کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی اور بھرپور عوامی ہمدردی کے باعث عمران خان جلد باہر آئیں گے اور ان کے خلاف مقدمات ختم ہو جائیں گے۔
تاہم جب تک ان کے خلاف مقدمات ختم نہیں ہوتے، ان کے سیاسی مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں بھی حصہ لے سکیں گے یا نہیں۔

سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کو حالیہ انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو: اے ایف پی

جہانگیر ترین
استحکام پاکستان پارٹی کے سرپرست اعلیٰ جہانگیر ترین بھی ان بڑے سیاسی ناموں میں سے ایک ہیں جو اس سال کے انتخابات کے نتیجے کی وجہ سے سیاست سے دور ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
انہیں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر شکست ہوئی جس کے بعد انہوں نے سیاست کو خیرآباد کہنے کا اعلان کر دیا۔
جہانگیر ترین کو حلقہ این اے 149 ملتان سے پاکستان تحریک انصاف کے آزاد امیدوار ملک عامر ڈوگر نے 93 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی جبکہ وہ اپنے آبائی حلقے این اے 155 لودھراں سے تین امیدواروں کو اپنے حق میں دستبردار کروانے کے باوجود وہاں سے بھی ہار گئے۔
انہیں اپنے علاقے میں مسلم لیگ نواز کے صدیق بلوچ نے 46 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہرایا۔ جہانگیر ترین صدیق بلوچ کے ایک لاکھ 13 ہزار ووٹ کے مقابلے میں صرف 66 ہزار ووٹ لے سکے۔
سراج الحق
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اپنے حلقے این اے 6 سے قومی اسمبلی کا انتخاب آزاد امیدوار بشیر خان سے 20 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہار گئے تھے جس کے بعد انہوں نے جماعت کی امارت سے بھی استعفٰی دے دیا تھا۔ اگرچہ ان کا اسعتفٰی قبول نہیں کیا گیا لیکن ان کی امارت کی مدت خاتمے کے قریب ہے جس کے بعد ان کے دوبارہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے اور جیتنے کے امکانات کم ہیں۔
پرویز خٹک
سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا و وزیر دفاع پرویز خٹک بھی انتخابات میں شکست کے بعد اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پارلیمیٹیرینز) کی سربراہی سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
وہ نوشہرہ سے قومی اسمبلی کے حلقے این 33 نوشہرہ سے آزاد امیدوار سید شاہ احد علی کے ہاتھوں 70 ہزار سے زائد ووٹوں اور صوبائی اسمبلی کے پی کے 87 نوشہرہ سے آزاد امیدوار خلیق الرحمان سے 26 ہزار ووٹوں سے ہارے تھے۔

جہانگیر ترین کو آزاد امیدوار ملک عامر ڈوگر نے 93 ہزار سے شکست دی۔ فوٹو: اے ایف پی

صرف یہی نہیں بلکہ نوشہرہ ہی کی دو نشستوں پر ان کے صاحبزادے کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے بعد پرویز خٹک نے اپنی جماعت کی سربراہی سے استعفٰی دیا اور اب بظاہر ان کے دوبارہ عملی سیاست میں آگے بڑھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
شیخ رشید احمد
کئی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچنے والے اور متعدد بار وفاقی وزیر رہنے والے راولپنڈی کے سیاستدان شیخ رشید احمد بھی حالیہ انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ بظاہر ان کے بھی قومی سیاست میں واپسی کے امکانات کم ہیں کیونکہ وہ بھی ابھی جیل میں ہیں اور مقدمات بھگت رہے ہیں۔ آئندہ انتخابات آنے تک سیاسی منظرنامہ بدلنے کے امکانات ہیں جس میں ان کی جگہ مشکل ہو سکتی ہے۔
چوہدری نثار علی خان
ایک وقت میں مسلم لیگ نواز کے انتہائی اہم رہنما سمجھے جانے والے چکری کے چوہدری نثار علی خان اس مرتبہ بھی آزاد حیثیت میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
سال 2018 کے انتخابات میں چوہدری نثار علی خان نے آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا تھا اور اس وقت بھی وہ قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ 
اوپر تلے مسلسل شکست کے بعد ان کے مستقبل کی سیاست میں سرگرم کردار پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔
آفتاب شیرپاؤ
چارسدہ کے حلقے این اے 24 سے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ بھی ہار گئے ہیں۔ آفتاب شیرپاؤ 2018 کے انتخابات میں بھی جیتنے میں ناکام رہے تھے۔ ان کا بھی قومی اسمبلی میں واپس آنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔
حاجی غلام احمد بلور
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما حاجی غلام احمد بلور بھی ایک مرتبہ پھر پشاور کے روائیتی حلقے سے ہار گئے ہیں اور ان کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ یہ ان کا آخری الیکشن تھا۔

الیکشن ہارنے کے بعد سراج الحق نے بطور امیر جماعت اسلامی استعفیٰ دے دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

ان صف اول کے رہنماؤں کے علاوہ دیگر کئی قابل ذکر سیاستدان بھی قومی سیاسی منظر نامے سے ہٹتے جا رہے ہیں جس کی بڑی وجہ انتخابات میں پے در پے شکست ہے۔
ان میں گجرات سے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ، جھنگ سے فیصل صالح حیات، بدین سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور زوالفقار مرزا اور مری سے شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔
انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار احمد اعجاز، جو پاکستان کے تمام قومی اور صوبائی حلقوں کے امیدواروں پر تحقیق کرتے ہیں، کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاسی ٹرینڈز بدلنے سے ماضی کے کئی مضبوط امیدوار اب قصہٗ پارینہ بن رہے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس کی بڑی وجہ بدلتے ہوئے سیاسی رحجانات اور عوام کی زیادہ آگاہی اور ان میں احتساب کے عمل کا فروغ ہے۔
’جو بڑے نام ان انتخابات میں شکست کھا گئے ہیں ان کا واپس آنا اب بہت مشکل ہے کیونکہ پانچ سال بعد سیاست اور آگے بڑھ جائے گی اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے معیار مختلف ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ناکام ہونے والے بڑے امیدواروں کی حیثیت بحال ہوتی نظر نہیں آ رہی۔‘

شیئر: