جو بہن بھائی ماں کے سائے تلے ایک ہی تھالی میں کھاتے تھے، ماں کی زندگی میں ہی بد گمانیوں کا شکار ہوگئے
* * * *ممتاز شیریں۔ دوحہ* * * *
یہ زندگی بہت عجیب ہے، لمحہ بہ لمحہ ایک نئی داستان جنم لیتی ہے۔نہ جانے کیوں کل رات سے دل بہت بوجھل ہے۔بہت سی بھولی بسری باتیں ہیں جو یاد آرہی ہیں۔ بہت سے بچھڑے رشتے ہیں جن کی کسک ستا رہی ہے بہت سے لوگ ہیں جو یادآرہے ہیں۔آج کوئی کہانی لکھنے کا قطعی ارادہ نہیں بلکہ کچھ احساسات، کچھ خیالات، کچھ درد کو آپ کے ساتھ بانٹنا ہے۔ کچھ داستانیں ایسی ہیں جن کو بیان کرنے کے لئے دل کے اندر ایک الاؤ سا پکتا ہے مگر الفاظ نہیں ملتے اور پھر ہر داستان لکھی بھی تو نہیں جا سکتی۔ ہم نے سنا تھا کہ جن احساسات و خیالات کو اظہار کے راستے نہ ملیں وہ متبادل راستے ڈھونڈ لیتے ہیں جیسے کوئی معصوم بچہ جسے بولنا نہیں آتا ،اسے کوئی چیز مانگنی ہو تو وہ مختلف حرکات و سکنات سے اس کا اظہار کرتا ہے جسے وہ لوگ بخوبی پہچان لیتے ہیں جو "اپنے" ہوتے ہیں۔ "اپنے" یہ لفظ کبھی کبھی کتنا غیر سا لگتا ہے۔اس غیر لگنے کی وجہ کیا ہے؟یہ وہ سوال ہے جس کے لئے الفاظ کھو جاتے ہیں۔
اپنا آپ بکھرا بکھرا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔بہت سارے کردار چلتے پھرتے یہیں کہیں آس پاس ہی محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ کردار کبھی کسی فرضی کہانی کا موضوع بنتے ہیں اور کبھی حقیقی آپ بیتیوں کا۔ سچ تو یہ ہے کہ فرضی کچھ بھی نہیں ہوتا کہیں نہ کہیں حقیقت لفظوں کے دریچوں سے جھانک رہی ہوتی ہے۔ذرا دیر کے لئے آنکھیں بند کروں تو ایک بھراپْرا گھر نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ دو سگی بہنوں کی شادی دو سگے بھائیوں سے ہوئی تھی۔ ایک بہن کثیر الاولاد تھی تو دوسری کے دو بیٹے ایک بیٹی تھی ۔دونوں بہنوں میں کبھی تو تکار ہو بھی جایا کرتی تھی لیکن خالہ زاد کہیں یا تایا زاد ،ان بہن بھائیوں کی محبت مثالی تھی ۔باہر والے تو باہر والے خود ان بہن بھائیوں کو کبھی یہ احساس نہیں ہوتاتھا کہ ہم میں سگاکون ہے۔ایک دوسرے پر جان دینے والے ، ایک کا درد دوسرا اپنے دل میں محسوس کرتا۔الغرض زندگی چلتی رہی،چلتی رہی۔بہنوں کی شادیاں ہو گئیں۔ وہ اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوئیں۔
بھائیوں کی دلہنیں آگئیں۔ محبت پھر بھی مسکراتی رہی ،بہن بھائی ایک دوسرے پہ جان نچھاورکرتے رہے۔ ان سب کے باہم اتفاق سے لوگ متاثر نظر آتے تھے ۔سب کے بچے آپس میں شیر و شکر تھے۔ ان تعلقات میں دراڑ تب نظر آئی جب بچے بڑے ہوئے ،تعلیمی مدارج کے اختتام پر پہنچے اور ان کے رشتے ناتے کرنے کا وقت آیا۔ نہ جانے شیطان نے کون سی چال چلی کہ آپس میں بنتے رشتے بگڑنے لگے ۔محبتوں میں جکڑے بہن بھائیوں کے دلوں میں بدگمانی کے بادل چھانے لگے۔
یہ بادل اس وقت اور گہرے ہوگئے جب ایک بھائی نے اپنی بیٹی کی شادی بہن کے بیٹے سے کی اور وہ شادی ناگزیر وجوہ کی بناء پر علیحدگی پرمنتج ہوئی۔ اس کے باعث پورا خاندان ہی تتر بتر ہو گیا۔اداس زندگی،اداس،وقت،اداس موسم،اداس رُت۔کتنی چیزوں پہ الزام لگا ہے ان کے روٹھنے کے بعد۔ بے شک مال اور اولاد آزمائش ہیں، امتحان ہیں۔ سب رشتے امتحان ہیں بھائی،بہن، اولاد، سب امتحان ِ زندگی کے پرچے ہیں:
وقت کی عدالت میں
زندگی کی صورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں
اک سوال نامہ ہے
یہ زندگی کے پرچے ہیں
کس نے یہ بنایا ہے
کس لئے بنایا ہے
کچھ سمجھ میں آیا ہے
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ہیں
سب سوال مشکل ہیں
زندگی کے پرچے کے یہ سوال جب انا، خود غرضی، خودپروری کا مجموعہ بنتے ہیں تو اپنائیت آٹے میں سے بال کی طرح باہر نکل جاتی ہے ،بے اخلاص نیکیوں کا ڈبہ خالی ڈھول کی طرح بجنے لگتا ہے۔ جو بہن بھائی ماں کے سائے تلے ایک ہی تھالی میں کھاتے تھے، ماں کی زندگی میں ہی بد گمانیوں کا شکار ہوگئے اور صرف تھالیاں ہی نہیں دل بھی جدا ہو گئے۔ماں کا انتقال ہو گیا لیکن زندگی کی سب سے بڑی حقیقت’’ موت‘‘ بھی انہیں دوبارہ نہ جوڑ سکی۔’’ موت، کتنا بڑا جھٹکا، کتنی بڑی سچائی۔‘‘ انہیں ماں کی موت قیامت لگ رہی تھی لیکن درحقیقت سب سے بڑی قیامت خون کے رشتے کی بے حسی تھی۔ بھائی نے جیتے جی بہنوں سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔بھائی کا گھر اجڑا تو قیامت بہن کے گھر بھی ٹوٹی لیکن نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے تربیت یوں فرمائی کہ: " اپنی مشکلوں میں اللہ کریم سے مدد طلب کرو اور ہمت نہ ہارو" " اگر تجھ پر کوئی مصیبت آپڑے تو یوں مت سوچ کہ اگر میں ایسا کرلیتا تو یوں ہو جاتا بلکہ یہ سوچ کہ اللہ کریم نے یہ مقدر کیا تھا، جو اس نے چاہا وہ کیا" اس لئے کہ "اگر" شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے مگر افسوس ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دنیا پرور نہ تھابلکہ سب دیندار تھے ۔پھر کیا ہوا،تکبر؟ہاں شاید عجز و انکساری کا تکبر لے ڈوبا۔ ہر چیز کا ایک نشہ ہوتا ہے ،شیطان دھوکا دینے کو ہر آن گھات لگائے بیٹھا ہے۔تکبر شیطانی عیب ہے ۔عبادت کا بھی ایک تکبر ہوتا ہے ابلیس بھی تکبر میں مارا گیا۔ اسی طرح ان سب بہن بھائیوں کو بھی اپنی مَیں کا تکبر لے ڈوبا۔میرے ساتھ کیوں؟یہ واقعہ کسی کے بھی ساتھ ہوسکتا تھا۔ تقدیر پہ ہمارا ایمان ہمیں مطمئن و پرسکون کر دیتا ہے ورنہ شیطانی وسوسوں کی حسرتیں ناگ بن کر زندگی بھر ڈستی رہتی ہیں۔
اگر مگر سے نکل آئیں۔ اللہ کریم کے فیصلے پر سر جھکا کر راضی بہ رضا ہو جائیں ۔اللہ کریم نے بار بار زندگی کا ابتلاء و آزمائش ہونا واضح فرما دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ کے ترجمے کا مفہوم ہے: ’’ہم تمہیں ضرور خوف و خطر، جان ومال کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہارا امتحان لیں گے اور جو لوگ صبر کریں گے ان کے لئے خوشخبری ہے" اللہ کے فیصلے پر سر جھکا کر راضی بہ رضا ہو جائیے، تقدیر سے لڑنا ممکن نہیںبلکہ یوں کہئے کہ’’ یا اللہ کریم میں تجھ سے مانگتی ہوں/مانگتا ہوں۔میں تیرے ہر حکم ،ہر فیصلے پہ راضی ہوں‘‘ ہم خدانخواستہ راضی نہ ہوئے تو حالات تو نہیں بدلیں گے، حقائق تو جوں کہ توں رہیں گے لیکن ہاں ہم شیطان کے پھندے میں پھنس کر حسرتوں ،بے قراریوں، بے چینیوں کا شکار ہو جائیں گے۔
مصائب پر صبر کریں گے تو اللہ کریم کا ساتھ ہوگا۔ جہاں انتقام کا جذبہ ہوگا ،بدلے کی آگ ہوگی وہاں شیطان کا ساتھ ہوگا وہ ابلیس (مایوس) ہوا ہے۔ مایوسی پھیلائے گا ،دماغ ماؤف کر دے گا، امیدیں توڑ دے گا۔میںہاتھ جوڑتی ہوں، پلٹ آئیں، زندگی میں ہی مل لیں، رنجشیں بھلا دیں۔ تقدیر پر راضی ہو جائیں کہ اس میں خطا رشتوں کی نہیں تقدیر کی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا لکھ رہی ہوں،دل رقیق ہو رہا ہے۔ الہٰی رحم فرما۔سب کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اداسی کم ہو جاتی ہے۔ مَیں کہتی ہوںکہ وقت گزرنے کے ساتھ اداسی بڑھ جایا کرتی ہے کافی عرصے سے بچھڑے ہوؤں کی یاد بھی زیادہ آیا کرتی ہے: ذہن کی جھیل پہ یادوں کی دھنک پھوٹتی ہے ایک میلہ ہے جو ہر شام اِدھر لگتا ہے یہ زندگی جب شروع ہوتی ہے تومعلوم ہی نہیں ہوتا کہ زندگی کیا ہے۔کوئی کہتا ہے زندگی ایک تشنگی ہے،کوئی کہتا ہے زندگی ایک سفر ہے تو سوچئے ذرا’’اپنائیت میں غیریت کا زہر ملانے سے پہلے،دنیا کی لذتوں میں کھونے سے پہلے،پاکیزگی کا لبادہ چڑھانے سے پہلے باطن کی ناپاکی کا بھی کچھ علاج ہو جائے:
یہ خواہشوں کا عالم،یہ ہے آرزو کی دنیا
یہ جہان رونقوں کا ،یہ ہے جستجو کی دنیا