کیا صوبہ پنجاب میں وزیرِ اعلٰی مریم نواز کا ’گورننس ماڈل‘ چل پائے گا؟
کیا صوبہ پنجاب میں وزیرِ اعلٰی مریم نواز کا ’گورننس ماڈل‘ چل پائے گا؟
جمعرات 18 اپریل 2024 5:34
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو بیک وقت کئی محاذوں پر سخت ردِعمل کا سامنا ہے۔
ایک طرف روٹی کی قیمت پر نان بائی اور تندور والے اس حکم کو ماننے سے عاجز نظر آتے ہیں تو دوسری طرف چکن بیچنے والے بھی ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ حکومت کے مقررکردہ نرخوں پر چکن فروخت نہیں ہو سکتا۔
تیسرا محاذ کسانوں کا ہے جہاں گندم کے سیزن میں حکومت کے مقررکردہ نرخ سے بہت کم قیمت پر گندم فروخت ہو رہی ہے۔کسان سراپا احتجاج ہیں کہ صوبائی حکومت کی طرف سے کم گندم خریدنے کے اعلان کے باعث قیمت گر گئی ہے۔
ان تینوں معاملات میں اپوزیشن، وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور ان کے گورننس ماڈل پر بھی سوالیہ نشان اٹھا رہی ہے۔
وزیراعلٰی پنجاب کی جانب سے روٹی کی قیمت 20 روپے سے کم کر کے 16 روپے مقرر کرنے کے لیے پورے صوبے کی مشینری کو حرکت میں لایا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف بھی منگل کو وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کے ہمراہ تندوروں پر روٹی کی قیمت چیک کرتے نظر آئے۔
اُدھر نان بائی ایسوسی ایشن کی جانب سے اس قیمت پر عمل درآمد نہ کرنے کے بیانات پر حکومت نے اُن کے ممبران کے خلاف مقدمات درج کرنا شروع کر دیے ہیں۔
اسی طرح جو تندور مالکان حکومتی ٹیموں کے چھاپوں کے دوران حکومت کی مقررکردہ قیمت پر روٹی فروخت نہیں کر رہے ان کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اب تک 400 سے زائد افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھچر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلٰی کے آرڈرز غیرحقیقی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’مریم نواز صرف سوشل میڈیا پر اپنی امیج بلڈنگ کے لیے ایسے احکامات دے رہی ہیں جن پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔ ان کا یہ گورننس ماڈل نہیں چلے گا۔‘
’حکومت نے 300 فیصد گیس مہنگی کر دی ہے۔ بجلی کی قیمت ہر ماہ بڑھائی جا رہی ہے اور اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں غریب دکان داروں کو حکم دینا کہ یہ چیز اِس قیمت پر بیچو جس پر میں کہہ رہی ہوں۔ یہ کون سی گورننس ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’مریم نواز کو اپنے چچا سے سیکھنا چاہیے جب وہ 2008 میں پنجاب میں برسراقتدار آئے تھے تو سپیشل تندور لگا کر سستی روٹی یا سبسڈی سے سستا آٹا دیا، تاہم انہوں نے بھی زور زبردستی سے قیمتیں کم نہیں کروائی تھیں۔‘
’سب کو پتا ہے کہ قیمت مارکیٹ فورسز طے کرتی ہیں۔ اسی طرح کسانوں کے ساتھ بھی ظلم کیا جا رہا ہے۔ اُن پر وزیر ہی ایسا لگایا گیا ہے جس کا زمینداری سے دور دور کا تعلق نہیں، وہ ان کے مسائل سمجھتا ہی نہیں۔ جب کسان سڑکوں پر آئیں گے تو اِس حکومت کو ٹک ٹاک بھول جائے گی۔‘
بدھ کے روز پنجاب پولٹری ایسوسی ایشن کی جانب سے مکمل طور پر ہڑتال کی گئی اور شہروں میں مرغی کے گوشت کی ترسیل نہیں ہو سکی اور چکن 800 روپے فی کلو سے زائد قیمت پر فروخت ہوتا رہا۔
پنجاب پولٹری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر طارق جاوید کہتے ہیں کہ ’حکومت فرضی ریٹ تیار کر کے حکم چلا رہی ہے کہ مرغی کو اس قیمت پر فروخت کیا جائے جو کہ ممکن ہی نہیں بلکہ یہ ہمارا معاشی قتلِ عام ہے۔‘
’ہماری ایک دن کی ہڑتال سے ہی اِنہیں عقل آگئی ہے۔ مذاکرات میں حکومت ہمارا اولین مطالبہ مان چکی ہے کہ غیرحقیقی ریٹ مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی ہمارے مذاکرات جاری ہیں۔‘
پنجاب کے وزیر خوراک بلال یاسین ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک روٹی کی قیمت کا تعلق ہے تو اس کو غیرحقیقی کہنا بے وقوفی ہے۔‘
’ہماری ٹیموں نے دن رات ایک کر کے یہ ریٹ نکالا ہے جس قیمت میں آٹا دستیاب ہے اور ایک تندور پر استعمال ہونے والی گیس بجلی، لیبر اور آٹے کے اخراجات نکال کر روٹی کی قیمت 16 روپے مقرر کی گئی ہے۔‘
بلال یاسین کے مطابق ’یہ حکم ایسے ہی جاری نہیں ہوا بلکہ اِس کے پیچھے دن رات کی محنت کارفرما ہے اور پورے صوبے میں اس کا اطلاق ہوگا۔‘
صوبائی وزیر خوراک کہتے ہیں کہ ’جو رپورٹس وزیراعلٰی پنجاب کے سامنے رکھی گئی ہیں ان کے مطابق تو اس سے بھی کم قیمت پر روٹی ملنی چاہیے۔ تنقید صرف وہ لوگ کر رہے ہیں جنہوں نے خود کبھی عوامی خدمت نہیں کی۔‘
’ہم نے کسانوں کی مشکلات کا ایک عملی حل نکالا ہے اور کسان کارڈ کے ساتھ ساتھ یہ طریقہ کار بھی طے کر رہے ہیں کہ کیسے دھان کی فصل کے لیے کسانوں کو کم قیمت پر کھاد فراہم کی جائے۔‘
اسی طرح پنجاب کی وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری کا بھی کہنا ہے کہ ’یہ چیخیں ان کی نکل رہی ہیں جن کو پتا ہے کہ مریم نواز جب ڈیلیور کریں گی تو اُن کی سیاست ختم ہو جائے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عوام کی فلاح کے ہر منصوبے کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے اور اس پر 100 فیصد عمل درآمد کروایا جائے گا او یہ ہی گورننس ماڈل ہے۔‘
حکومت کے دعوے ایک طرف مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومتی احکامات پر عمل درآمد کروانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں احتجاج اور ہڑتال جیسی کالز بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران یہ واضح ہو جائے گا کہ پنجاب حکومت کوئی مربوط نظام لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا صرف عبوری حکم ناموں کے ذریعے ہی سسٹم چلایا جائے گا۔