’ہم روز کاروبار کرتے ہیں لیکن آج نہیں، ہم سب متاثرہ سیاحوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہ وقت ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔‘
یہ وہ ہدایت ہے جو ضلع دیامر ہوٹل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اور چلاس میں قائم ہوٹل رائل سٹی کے مالک طارق محمود قریشی نے بابو سر اور ملحقہ علاقوں میں سیلابی صورتحال کے پیشِ نظر تمام ہوٹل مالکان کو جاری کی۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت دیامر کے تمام متاثرہ علاقوں میں قائم ہوٹلوں پر مفت قیام و طعام کا انتظام کیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
مملکت کے کن علاقوں میں جمعے سے اتوار تک بارش کا امکان؟Node ID: 821366
-
’میرے بعد یہ کام ختم ہو جائے گا‘، راوی کے کشتی سازNode ID: 892500
پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کی حکومت نے کہا ہے کہ ضلع دیامر میں شاہراہِ تھک بابوسر میں 200 سے زیادہ سیاحوں کو ریسکیو اہلکاروں اور مقامی لوگوں کی مدد سے بچا لیا گیا ہے جبکہ لاپتہ سیاحوں کی تلاش جاری ہے۔
گزشتہ روز دوپہر 3 بجے کے قریب شاہراہ تھک بابوسر پر سیاح گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیوں کے نظاروں میں گم تھے کہ فطرت نے اچانک اپنا روپ بدل لیا۔
کلائوڈ برسٹ کے باعث نالہ تھک کے مقام پر سیلابی ریلے نے تباہی مچا دی۔ سڑکیں تباہ ہو گئیں، گاڑیاں کیچڑ اور پانی میں دھنس گئیں اور کچھ سیاح جان بچانے کے لیے پہاڑوں پر چڑھ گئے۔
مواصلاتی نظام مفلوج ہو گیا اور نیٹ ورکس بند ہو گئے۔ اس افراتفری کے عالم میں ضلع دیامر کے مقامی لوگوں نے جہاں اپنے گھروں اور ہوٹلوں کے دروازے کھولے وہیں ریسکیو سرگرمیوں میں حصہ لے کر کئی لوگوں کی زندگیاں بھی بچائیں۔
سیلاب نے جب شاہراہ تھک بابوسر کو اپنی لپیٹ میں لیا تو مقامی لوگ متاثرہ لوگوں کے پاس پہنچے۔
دیامر یوتھ موومنٹ کے صدر شبیر احمد قریشی تمام تر صورتحال کو دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اپنی ٹیموں کو ہدایات دیں کہ وہ متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر لوگوں کی مدد کریں۔
دیامر یوتھ موومنٹ میں ضلع بھر سے نوجوان رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔

شبیر احمد نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے رضاکاروں سے رابطہ کر کے انہیں متاثرہ مقامات پر بھیجا جہاں سیاح پھنسے ہوئے تھے۔ رضاکاروں کے پاس نہ تو جدید آلات تھے اور نہ ہی کوئی پیشہ ورانہ تربیت لیکن ان کے جذبے نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔‘
’انہوں نے مقامی طریقوں سے کیچڑ میں پھنسی گاڑیوں سے سیاحوں کو نکالا، پہاڑوں پر پھنسے لوگوں تک پہنچ کر انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا، اور سیلابی ریلے سے لاشوں کو نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کیا۔‘
ان کی ٹیم میں شامل ذوالکفل، محمد طاہر، محمد عالم، اعجاز، اور اظہار اللہ جیسے رضاکاروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
شبیر احمد نے کہا کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ سیلاب کے پانی اور ان مقامات سے لاکھوں روپوں کی نقدی بھی برآمد ہوئی جسے انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘
سیلابی صورتحال جب شدت اختیار کر گئی تو ملک کے مختلف حصوں سے آئے سیاح پریشان ہونے لگے۔ اس دوران مقامی لوگوں نے اپنے گھروں اور ہوٹلوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے۔
اس وقت تک انتظامیہ اور ریسکیو ٹیمیں متاثرہ مقامات پر نہیں پہنچی تھیں تاہم دیامر کے رہائشیوں نے پھنسے ہوئے مسافروں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کے کھانے پینے اور رہائش کا بندوبست بھی کیا۔
