Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئینی ترمیم پر مشاورت، جمعے کو دن بھر صورتحال کیسے تبدیل ہوتی رہی؟

جمعے کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس آئینی ترمیم پیش کیے بغیر ہی ملتوی کردیے گئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حکومت کے لیے 26ویں آئینی ترمیم ایوان میں پیش کرنا ایک معمہ بن گئی ہے۔ تمام تر مشاورتی عمل، کوششوں اور دعوؤں کے باوجود جمعہ کو حکمران اتحاد آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ایک روز قبل رات گئے تک جاری رہنے والی سیاسی بیٹھکوں کے بعد جمعہ کو سیاسی سرگرمیوں اور مشاورتی عمل کا آغاز دوپہر کے بعد شروع ہوا۔
ایک طرف پارلیمنٹ میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس جاری تھا تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز اور محور تھی۔ تحریک انصاف کا وفد مولانا فضل الرحمان اور ان کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے وہاں موجود رہا۔
پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے چوتھا اور حتمی مسودہ پیش کیا گیا جو صرف عدالتی اصلاحات پر مبنی تھا۔ 
اگرچہ یہ کمیٹی کا دسواں اجلاس تھا لیکن سیاسی جماعتوں کی اعلٰی سطح کی قیادت اس اجلاس میں موجود نہیں تھی، البتہ تمام جماعتوں کے نمائندے اس اجلاس میں موجود تھے۔ 
بظاہر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ آج کے اجلاس میں بھی کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوگی بلکہ مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ہونے والی سیاسی بیٹھک ہی فیصلہ کن ثابت ہوگی۔ 
اجلاس ختم ہوا تو کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے اعلان کیا کہ کمیٹی نے آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ہے جو عدالتی اصلاحات پر مبنی ہے۔ دیگر ترامیم اگلے مرحلے میں پیش کی جائیں گی۔
دوسری جانب بظاہر یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹرز کے مبینہ اغوا پر حکومت سے نالاں ہیں جس کا اظہار انہوں نے جمعرات کی رات اپنی پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ 
اس لیے وہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کر کے آئندہ کا لائحہ عمل طے کر رہے ہیں کہ حکومت کو کس طرح سے ٹف ٹائم دینا ہے اور ترمیم کو کیسے ناکام بنانا ہے۔ 
تاہم جلد ہی یہ عُقدہ کُھلا کہ مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ترمیم کو ناکام بنانے کے لیے نہیں بلکہ اسے متفقہ طور پر منظور کرنے کے حوالے سے جے یو آئی کے سربراہ تحریک انصاف کو قائل کر رہے ہیں اور ان کی ٹیم پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو بریفنگ دے رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے گھر پر اپوزیشن کا اجلاس جاری تھا کہ بلاول بھٹو زرداری بھی وہاں پہنچ گئے (فوٹو: جے یو آئی)

اس معاملے پر جمعیت علما اسلام کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کی تقریباً تمام تجاویز کو منظور کرتے ہوئے آئینی ترمیمی بل کا حصہ بنا لیا گیا ہے اس لیے اب ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ تحریک انصاف بھی اس ترمیم کے حق میں ووٹ دے۔ 
’مولانا فضل الرحمان انہیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جائیں گے۔ پھر بھی اگر تحریک انصاف ووٹ نہیں دیتی تو یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا۔‘
مولانا فضل الرحمان کے گھر پر اپوزیشن رہنماؤں کا اجلاس جاری تھا کہ بلاول بھٹو زرداری بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ 
بعد ازاں ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر موجود تحریک انصاف کے رہنماؤں سے فرداً فرداً مصافحہ کر رہے ہیں۔
اس ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو یہ یقین دلایا کہ عمران خان سے ان کی ملاقات کا انتظام کرنے میں وہ اپنی کوشش کریں گے۔
یہ اجلاس ختم ہوا تو پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ آئینی ترامیم کے موجودہ مسودے پر جے یو آئی کے ساتھ متفق ہیں، تاہم حتمی فیصلہ عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی کیا جائے گا۔

’آئینی ترمیم کے سلسلے میں وزیراعظم، صدر اور ایک اعلٰی شخصیت کی ایوان صدر میں ملاقات بھی ہوئی‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کر کے حتمی منظوری کے لیے کابینہ کو بھیج دیا تو یہ خبریں بھی سامنے آنے لگیں کہ کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
 بعض جگہوں پر یہ خبر بھی نشر ہوئی کہ اجلاس شروع ہو چکا ہے، تاہم بعد ازاں وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ اجلاس سنیچر کی صبح ساڑھے نو بجے ہوگا جس میں آئینی ترمیم کے مسودے کی حتمی منظوری دی جائے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک طرف سیاسی جماعتوں نے پارلیمانی کمیٹی میں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی تھی اور مولانا فضل الرحمان کے گھر پر بھی اتفاق رائے کی طرف ہی بات جار رہی تھی۔
دوسری جانب قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں تحریک انصاف اور جمعیت علما اسلام کے ارکان کسی بھی آئینی ترمیم کے حوالے سے کُھل کر اختلاف رائے کا اظہار کر رہے تھے۔
سینیٹ میں خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطا الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم نے سینیٹر عبدالشکور کے اغوا کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی بازیابی کے لیے کوشش کریں گے۔
 اُن کے مطابق جمعیت علما اسلام کو اس حوالے سے آگاہ کریں گے لیکن وزیراعظم کی جانب سے تاحال کسی قسم کا کوئی ردِعمل یا جواب سامنے نہیں آیا۔

وفاقی کابینہ کا جمعے کو ہونے والا اجلاس بھی سنیچر کی صبح تک ملتوی کردیا گیا (فائل فوٹو: اے پی پی)

قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل مولانا غفور حیدری نے کہا کہ ہم کسی غیر آئینی اور زبردستی کے ترمیمی بل کا حصہ نہیں بنیں گے۔
تحریک انصاف کے علی محمد خان نے آئینی ترمیم کو غیر آئینی ترمیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب لوگوں کی بہنیں اور بیٹیاں اغوا کی جا رہی ہوں تو ایسے میں کوئی بھی آئینی ترمیم ائینی نہیں کہلا سکتی اس لیے اس کی ہر صورت مخالفت کی جانی چاہیے۔
امکان یہی تھا کہ جمعے کو سینیٹ میں ترمیمی بل پیش کر دیا جائے گا لیکن جب سینیٹ کا اجلاس ملتوی ہوا تو حکمران اتحاد کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صورت حال سے آگاہ کیا۔
ان کے مطابق ’جمعے کو ترمیمی بل پیش نہ ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ آئینی ترمیمی بل میں مسلح افواج سے متعلق تمام ترامیم کو اگلے مرحلے تک مؤخر کیا گیا ہے جس پر مقتدر حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے اور وہ اس سے خوش نہیں ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں وزیراعظم، صدر اور ایک اعلٰی شخصیت کی ملاقات ایوان صدر میں ہوئی ہے۔ اس ملاقات میں موجودہ آئینی ترمیم میں مسلح افواج سے متعلق ترامیم شامل کرنے اور سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے قائل کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
تاہم حکومت کی جانب سے ایسی خبروں کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔

شیئر: