لیبیا کے مشرقی شہر سیریت کے قریب 12 اپریل کو ہراوا کوسٹ پر تارکین وطن کی ایک اور کشتی سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئی ہے۔ حادثے میں کم از کم 11 افراد جان کی بازی ہار گئے، جن میں چار پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
پاکستانی سفارتخانے نے موقعے پر پہنچ کر لاشوں کی شناخت کی، جن کے نام زاہد محمود (گوجرانوالہ)، سمیر علی، سید علی حسین اور آصف علی (تینوں منڈی بہاؤالدین) بتائے گئے۔ ان کی عمریں بظاہر 20 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔
یہ واقعہ کوئی پہلا حادثہ نہیں بلکہ کئی سالوں سے جاری اس المیے کا حصہ ہے، جس میں پاکستانی نوجوان، روزگار اور بہتر مستقبل کی امید لیے غیرقانونی راستوں سے یورپ جانے کی کوشش میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ لیبیا، ترکی اور یونان کے سمندر ان خوابوں کی اجتماعی قبریں بن چکے ہیں۔ صرف پچھلے دو سالوں کے دوران سینکڑوں پاکستانی نوجوان یورپ پہنچنے سے پہلے ہی کشتیوں کے ذریعے سمندر میں ڈوب کر ہلاک یو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
جون 2023 میں یونان کے ساحل پر پیش آنے والا حادثہ شاید سب سے بڑا اور دل دہلا دینے والا سانحہ تھا، جس میں 280 سے زائد پاکستانی شہری مارے گئے تھے۔ اسی طرح فروری 2023 میں اٹلی کے قریب کشتی ڈوبنے سے 20 سے زائد پاکستانی جان سے گئے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق پنجاب، خیبر پختونخوا اور کشمیر کے پسماندہ علاقوں سے تھا۔
حال ہی میں مراکش میں کشتی کے ذریعے یورپ جانے والوں کو مقامی ایجنٹوں کی جانب سے مبینہ طور پر ہتھوڑے مار کر ہلاک کیا گیا، جن میں سے اکثریت کی نعشیں تک نہیں ملیں۔
ان واقعات نے ریاستی اداروں کو متعدد بار جھنجھوڑا ہے، لیکن انسانی سمگلنگ کا کاروبار بدستور جاری ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے وقتاً فوقتاً کارروائیاں کی جاتی ہیں، ملزمان کو گرفتار کیا جاتا ہے، ’ریڈ بک‘ جاری ہوتی ہے، لیکن چند بڑے سمگلرز کو چھوڑ کر زیادہ تر مجرم یا تو ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں یا پھر قانونی سقم کی وجہ سے بری ہو جاتے ہیں۔
2023 میں ایف آئی اے نے 150 سے زائد ایجنٹس کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن بعد میں میڈیا رپورٹس اور پارلیمان میں پوچھے گئے سوالات سے معلوم ہوا کہ ان میں سے بیشتر مقدمات یا تو کمزور تفتیش کے باعث ختم ہو گئے یا کئی ماہ تک عدالتوں میں زیر التوا رہے۔

ایف آئی اے نے مختلف اوقات میں ’غیرقانونی ہجرت کے خلاف آگاہی‘ مہمات کا آغاز کیا، لیکن ان کی رسائی شہری علاقوں تک محدود رہی۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں، جہاں سے زیادہ تر نوجوان اس خطرناک راستے کا انتخاب کرتے ہیں، وہاں ان مہمات کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر آج بھی انسانی سمگلرز کھلے عام یورپی ویزے، ورک پرمٹ، اور ’محفوظ راستے‘ کے اشتہارات چلاتے نظر آتے ہیں، جن میں ترکی، ایران، لیبیا اور تیونس کے زمینی و سمندری راستے شامل ہوتے ہیں۔
ہر حادثے کے بعد ایف آئی اے متحرک ہوتا ہے اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں۔ ماضی قریب میں ہونے والے حادثات اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے دباؤ کے بعد انسانی سمگلنگ کے خلاف فیصلہ کن کریک ڈاؤن کے دوران، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 458 سمگلروں اور ایجنٹوں کو گرفتار کیا ہے۔ گرفتار کیے گئے افراد میں ریڈ بک میں شامل آٹھ سمگلر بھی شامل ہیں۔
ایف آئی اے نے ماضی میں پیش آنے والے پناہ گزینوں کے سانحات کی تحقیقات میں بھی اہم پیش رفت کی ہے۔ 2023 کے یونان کشتی حادثے سے منسلک 19 مفرور، 2024 کے یونان حادثے میں ملوث 18 ملزمان اور 2025 کے مراکش کشتی سانحے سے جڑے 10 ایجنٹس کو گرفتار کیا گیا ہے۔
سمگلنگ نیٹ ورکس کو مزید کمزور کرنے کے لیے ایف آئی اے نے 66 کروڑ 16 لاکھ 30 ہزار روپے مالیت کی جائیدادیں ضبط کی ہیں اور سات کروڑ 35 لاکھ 10 ہزار روپے کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے ہیں، جو غیرقانونی سرگرمیوں سے منسلک تھے۔ اس کے علاوہ انٹرپول کے ذریعے 26 ریڈ نوٹس جاری کیے گئے ہیں، تاکہ بین الاقوامی سطح پر سرگرم سمگلروں کو ٹریس کرکے گرفتار کیا جا سکے۔

دوسری جانب حکام نے ہوائی اڈوں پر نگرانی میں اضافہ کر دیا ہے تاکہ آئندہ سمگلنگ کی کوششوں کو روکا جا سکے۔
ایف آئی اے نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے مکمل خاتمے تک کریک ڈاؤن جاری رہے گا۔
حکام نے بتایا ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیمیں متاثرین کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں تاکہ انہیں معاونت فراہم کی جا سکے اور انٹیلی جنس معلومات حاصل کی جا سکیں، تاکہ انسانی سمگلنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنائی جا سکے۔
گزشتہ دو برسوں میں انسانی سمگلنگ کے خلاف تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کے درجنوں افسران کے خلاف سخت کارروائیاں کی گئی ہیں۔ خاص طور پر جون 2023 میں یونان کے ساحل پر کشتی حادثے کے بعد ایف آئی اے پر شدید دباؤ آیا، جس کے نتیجے میں ادارے کے اندر بدعنوانی اور انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کی نشاندہی کی گئی۔

پچھلے دو سالوں کے دوران 51 ایف آئی اے اہلکاروں کو انسانی سمگلنگ میں ملوث ہونے پر ملازمت سے برطرف کیا گیا، جن میں سے صرف 2024 میں 41 افسران کو نکالا گیا۔ اس کے علاوہ، 27 اہلکاروں کو گرفتار بھی کیا گیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔
جنوری 2025 میں ایک اعلٰی سطح انکوائری کے بعد 65 ایف آئی اے افسران کو امیگریشن چیک پوسٹوں اور انسداد انسانی سمگلنگ یونٹس پر تعیناتی سے روک دیا گیا۔
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ 60 سے زائد اہلکار انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر منسلک تھے، جن میں سے 38 کے خلاف فوری طور پر برطرفی کی کارروائی کی گئی۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق یہ اقدامات ایف آئی اے کی اندرونی صفائی اور ادارے پر عوامی اعتماد کی بحالی کی کوششوں کا حصہ ہیں تاکہ انسانی سمگلنگ جیسے گھناؤنے جرم کا سدباب کیا جا سکے۔