اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کی تو نتائج نسلوں پر اثر انداز ہوں گے: ڈی جی آئی ایس پی آر
پاکستان فوج نے خبردار کیا ہے کہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں میں پاکستان کے حصے کے پانی کو روکنے کی انڈیا کی کسی بھی کوشش کے نتائج نسلوں پر اثر انداز ہوں گے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعے کو عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ وہ وقت نہیں آئے گا، لیکن یہ ایسے اقدامات ہوں گے جو دنیا دیکھے گی اور ان کے نتائج سے ہم آنے والے برسوں اور دہائیوں تک لڑیں گے۔‘
’یہ کوئی پاگل ہے جو سوچ سکتا ہے کہ وہ اس ملک کے 24 کروڑ سے زائد لوگوں کا پانی روک سکتا ہے۔‘
انڈیا نے گذشتہ مہینے اپنے زیرِانتظام کشمیر میں سیاحوں پر عسکریت پسندوں کے ایک خوفناک حملے کے بعد اس کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر دہائیوں پرانے سندھ طاس معاہدے کو ختم کر دیا۔ اگرچہ پاکستان نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
تاہم چھ مئی کو انڈیا نے ایل او سی سمیت پاکستان کے مخلتف شہروں کو نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ وہ عسکریت پسندوں کے کیمپس تھے۔
پاکستان نے 10 مئی کو امریکی مداخلت کے بعد ہونے والی جنگ بندی سے قبل جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈیا کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ لیکن جنگ بندی کے باوجود انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے رواں ہفتے اعلان کیا کہ ان کا ملک پاکستان کی جانب پانی کے بہاؤ کو روکے گا۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جسے پاکستان پہلے ہی اپنی بقا کے لیے براہ راست خطرہ اور جنگی اقدام قرار دے چکا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ سنہ 1960 میں ورلڈ بینک کی ثالثی میں ہوا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان کئی جنگوں کے باوجود یہ ہمیشہ برقرار رہا۔
حکومت پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کے حالیہ حملوں میں 40 شہری ہلاک ہوئے جن میں 22 خواتین اور بچے شامل تھے۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 26 انڈین فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ اور جنگ بندی ہوتے ہی جوابی حملے روک دیے۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’پاکستان کی مسلح افواج پیشہ ور ہیں اور ہم ان وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں، اور ہم سیاسی حکومت کی ہدایات عمل کرتے ہیں۔‘
انہوں نے انڈیا کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے کہا کہ ’جہاں تک پاکستانی فوج کا تعلق ہے، یہ جنگ بندی آسانی سے برقرار رہے گی اور دونوں اطراف کے درمیان رابطے میں اعتماد سازی کے اقدامات کیے گئے ہیں۔‘
دونوں ممالک پہلے ہی ایک دوسرے پر جنگ بندی کے نفاذ کے بعد متعدد بار خلاف ورزی کا الزام لگا چکے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہم ردعمل دیتے ہیں، لیکن یہ صرف ان پوسٹوں اور ان مقامات پر ہوتا ہے جہاں سے جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔‘