Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور، جمعیت علمائے اسلام کا واک آؤٹ

قانون کے مطابق جو شخص کسی کم عمر دلہا یا دلہن کو شادی پر مجبور کرے گا، اسے سات برس تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کا سامنا ہو گا۔ (فائل فوٹو: گلوبل گیونگ)
پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ نے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کے بل کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت 18 برس سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی کو جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ بل کی منظوری کے موقع پر جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف نے اس کی شدید مخالفت کی اور ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
پیر کو سینیٹ میں یہ بل سینیٹر شیری رحمٰن نے پیش کیا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’بچہ وہ فرد ہے جس کی عمر 18 برس سے کم ہو۔ بل کے تحت نکاح خواں کسی ایسے نکاح کی اجازت نہیں دے گا جس میں دلہا یا دلہن کی عمر اس حد سے کم ہو۔ نکاح کے وقت دونوں فریقین کے قومی شناختی کارڈ کی موجودگی لازمی قرار دی گئی ہے تاکہ عمر کی تصدیق ممکن ہو سکے۔‘
’خلاف ورزی کی صورت میں نکاح خواں کو ایک برس تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اگر 18 برس سے زیادہ عمر کا کوئی مرد کسی کم سن بچی سے شادی کرے گا تو اسے تین برس تک قیدِ بامشقت کی سزا دی جائے گی۔ 18 برس سے کم عمر کے بچوں کے درمیان جسمانی تعلق کو بچوں سے زیادتی تصور کیا جائے گا۔‘
قانون کے مطابق جو شخص کسی کم عمر دلہا یا دلہن کو شادی پر مجبور کرے گا، اسے سات برس تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کا سامنا ہو گا۔ اسی طرح ٹریفکنگ کی نیت سے بچوں کی شادی کرنے والے فرد کو بھی سات برس تک قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے، جبکہ معاونت کرنے والے کو تین برس تک قید اور مالی جرمانہ ہو گا۔ اگر والدین یا سرپرست بچے کی کم عمری میں شادی کرائیں یا اسے روکنے میں ناکام رہیں، تو ان کے لیے بھی تین برس قیدِ بامشقت اور جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
قانون میں عدالت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادی کی اطلاع پر شادی کو رکوانے کا حکم جاری کرے، اور اگر اطلاع دینے والا چاہے تو عدالت اس کی شناخت کو مخفی رکھے گی۔ اس قانون کے تحت بچوں کی شادی کرانا ناقابلِ ضمانت جرم تصور کیا جائے گا اور عدالت 90 روز میں کیس کا فیصلہ کرے گی۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے نازک مسئلے پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لینا ضروری ہے۔ یہ مذہب اور ثقافت سے جڑا ہوا معاملہ ہے جس پر علما کی رہنمائی ناگزیر ہے۔‘
اس پر شیری رحمٰن نے مؤقف اختیار کیا کہ ’یہ بل مذہب کے خلاف نہیں بلکہ بچوں کے تحفظ سے متعلق ہے۔ آپ 18 برس سے کم عمر بچیوں کی شادی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ بچوں کے بنیادی حقوق کا بل ہے۔‘

سینیٹ میں یہ بل پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پیش کیا۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

جے یو آئی ف کے سینیٹر مولانا عطا الرحمٰن نے کہا کہ ’بل والدین سے ان کا حق چھیننے کے مترادف ہے۔ اگر بچوں کو والدین کی مرضی کے بغیر آزادی دی گئی تو ہمارا معاشرہ یورپ بن جائے گا۔‘
انہوں نے بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان کی جماعت واک آؤٹ اور احتجاج کرے گی۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ ’پاکستان کے سوا کوئی اسلامی ملک ایسا نہیں جہاں شادی کی عمر 18 برس سے کم ہو۔ مصر میں تو شادی کی عمر 21 برس ہے۔‘
اے این پی کے ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ ’شادی کا اصل معیار بلوغت ہے۔ اگر ایک باپ اپنی 15 سالہ بیٹی کی زندگی میں شادی کرانا چاہے، اور لڑکی، ماں، لڑکا اور نکاح خواں سب راضی ہوں، تب بھی قانون اجازت نہیں دے گا۔ آپ قانون وہاں لائیں جہاں زبردستی کی شادیاں ہو رہی ہیں۔‘
پی ٹی آئی کی سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا کہ ’بچوں کی شادی ایک گناہ ہے۔‘
سینیٹر سیدال خان ناصر نے جے یو آئی ف سے سوال کیا کہ ’رولز کے مطابق بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کے لیے اکثریت درکار ہے، کیا آپ کے پاس 38 اراکین ہیں؟‘ اس کے بعد جے یو آئی نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی پہلے ہی اس بل کی منظوری دے چکی ہے جہاں یہ بل پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شرمیلہ فاروقی نے پیش کیا تھا۔ صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد یہ بل باضابطہ طور پر قانون کی شکل اختیار کر جائے گا۔

 

شیئر: