ایک برطانوی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوجی غزہ میں امدادی مراکز میں بچوں پر گولیاں چلا رہے ہیں، اور ہفتے کے دن کے لحاظ سے جسم کے مختلف حصوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق خان یونس کے ناصر ہسپتال میں کام کرنے والے معدے کے سرجن پروفیسر نک مینارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں نے بچوں کے جسموں ’زخموں کے واضح نشان‘ دیکھے ہیں، جن میں ’مختلف دنوں میں جسم کے کچھ حصوں جیسے سر، ٹانگیں یا دیگر اعضا‘ شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
منقسم یورپی یونین کا غزہ جنگ پر اسرائیل کے خلاف کارروائی پر غورNode ID: 892261
-
غزہ میں امدادی مراکز کے قریب 875 فلسطینی مارے گئے: اقوام متحدہNode ID: 892279
انہوں نے بی بی سی ریڈیو 4 کو بتایا کہ ’ایک دن ان سب کے پیٹ میں گولی لگنے کے زخم ہوں گے، دوسرے دن سب کے سر پر یا گردن پر گولیوں کے زخم ہوں گے، اگلے دن بازوؤں یا ٹانگوں پر گولیوں کے زخم ہوں گے۔‘
سرجن پروفیسر نک مینارڈ کا کہنا تھا کہ ’یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسے کوئی کھیل کھیلا جا رہا ہو، کہ وہ آج سر، کل گردن، پرسوں جسم کے نازک اعضا کو گولی مارنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے زیرِانتظام امدادی تقسیم کے مقامات پر، جنہیں وہ ’موت کے پھندے‘ سمجھتے ہیں، متاثرین اکثر اوقات نوعمر لڑکے ہوتے ہیں۔
نک مینارڈ نے مزید کہا کہ ’ایسے واقعات زیادہ تر فوجی نگرانی والے تقسیم کے مراکز میں ہوتے ہیں، جہاں بھوکے شہری کھانے کے حصول کے لیے جاتے ہیں، لیکن پھر بتاتے کہ انہیں اسرائیلی فوجیوں یا ڈرونز کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔‘
جی ایچ ایف کے مراکز، جنہیں امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے، پر نجی ٹھیکیدار (فوجی) اور اسرائیلی فوجی تعینات ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان مراکز پر مئی سے لے کر اب تک فائرنگ سے کم از کم 875 فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔