Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سکیورٹی گارڈز اور کیمرے‘، بلوچستان میں بس مسافروں کی حفاظت کے لیے نئے اقدامات

بلوچستان حکومت کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مسافر بسوں کی سکیورٹی بہتر بنائی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان حکومت نے مسافر بسوں پر حملوں اور مسافروں کے قتل کے واقعات میں اضافے کے بعد پنجاب اور دوسرے صوبوں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے سکیورٹی اقدامات سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
محکمہ داخلہ و قبائلی امور بلوچستان نے 15 جولائی کو تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور محکمہ ٹرانسپورٹ کو ایک مراسلے کے ذریعے ہدایت جاری کی ہے کہ پنجاب سمیت دیگر صوبوں کو جانے والی بسوں میں دو سکیورٹی گارڈ، سی سی ٹی وی کیمرے، ٹریکر اور پینک الارم بٹن کی تنصیب کو یقینی بنایا جائے۔
حکام کے مطابق یہ فیصلہ 10 جولائی کو ژوب میں این 70 شاہراہ پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے بعد کیا گیا۔
اس سے قبل اگست 2024 میں موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں 23 اور فروری 2025 میں بارکھان کے علاقے رڑکن میں سات مسافروں کو اسی شاہراہ پر قتل کیا گیا تھا۔
پینک الارم بٹن کے ذریعے کسی حملے یا ایمرجنسی کی صورت میں قریبی تھانے اور متعلقہ حکام کو اطلاع فراہم کی جا سکے گی تاکہ سکیورٹی یا ریسکیو ٹیمیں بروقت مدد کے لیے پہنچ سکیں۔
حکومتی ہدایت جاری ہونے کے ایک روز بعد بھی 16 جولائی کو قلات میں کراچی سے کوئٹہ جانے والی بس پر فائرنگ سے تین افراد ہلاک اور اور 14 زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ نے قبول کی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ حکومت نے ایسے اقدامات کا اعلان کیا ہو۔ اپریل 2024 میں نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافروں کے قتل کے بعد بھی اسی طرز کے سکیورٹی احکامات جاری کیے گئے تھے جن پر مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا۔
اس وقت بھی حکومت نے ہر مسافر بس کے ساتھ مقامی تھانے کے اہلکار کی تعیناتی اور حساس شاہراہوں پر چیک پوسٹوں کے قیام کا اعلان کیا تھا مگر بسوں پر حملوں اور مسافروں کے قتل کے واقعات کی روک تھام نہیں ہو سکی۔
ٹرانسپورٹرز نے حکومتی فیصلوں کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔ بلوچستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک حاجی دولت لہڑی کا کہنا ہے کہ ’سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے حکومت اپنی ذمہ دار ی پوری کرنے کی بجائے بوجھ ٹرانسپورٹرز پر ڈال رہی ہے۔ بسوں میں دو سکیورٹی گارڈ تعینات کیے بھی جائیں تو وہ درجنوں حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا وسیع رقبہ اور وسائل کی کمی سکیورٹی کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ پہلے ہی تباہی کا شکار ہے اور عوام خوف کے باعث سفر سے گریز کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی شاہراہوں پر سکیورٹی فورسز کا گشت بڑھائے اور موثر اقدامات کرے، ہم تعاون کے لیے تیار ہیں۔
دولت لہڑی کے مطابق اس وقت بھی بسوں کو رات کے وقت سفر کی اجازت نہیں، کوئٹہ سے پنجاب جانے والی گاڑیاں دن 11 بجے کے بعد کوئٹہ سے نہیں نکل سکتیں۔
’اسی طرح کوئٹہ ژوب، لورالائی ڈیرہ غازی خان، کوئٹہ تفتان، کوئٹہ کراچی سمیت سبھی شاہراہوں پر شام پانچ بجے کے بعد بسیں روک دی جاتی ہیں جو پوری رات سڑکوں پر کھڑی رہتی ہیں اور پھر صبح انہیں دوبارہ سفر کی اجازت دی جاتی ہے۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا وسیع رقبہ، کم آبادی اور وسائل کی کمی سکیورٹی کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق ٹرانسپورٹرز کو حکومتی احکامات پر عمل کرنا ہوگا تاکہ مسافروں کی جانیں محفوظ رہیں۔
قبل ازیں جمعرات کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مسافروں کے قتل کے واقعات اور سکیورٹی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر شاہد رند کا کہنا تھا کہ شاہراہوں پر سکیورٹی انتظامات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

شیئر: