Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

400 گولیاں روزانہ، کراچی میں ٹی بی کی شکار ہتھنیوں کا ’انسانوں جیسا علاج‘

ٹی بی کا ٹیسٹ پازیٹیو آنے کے بعد جانوروں کا علاج شروع کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی کے سفاری پارک میں ٹی بی کی شکار دو ہتھنیوں کے علاج کے لیے ’انسانوں جیسا‘ طریقہ کار ہی اختیار کیا جا رہا ہے اور روزانہ سینکڑوں گولیاں کھلائی جا رہی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روزانہ انہیں چار سو سے زائد گولیاں کھلائی جاتی ہیں جو سیب، کیلوں اور میٹھی چیزوں میں چھپا کر دی جاتی ہیں۔
 رپورٹ کے مطابق دوا کی مقدار کو جانورں کے چار ہزار کلو گرام وزن کے حساب سے ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔
یہ طریقہ کار کچھ کارگر ثابت ہو رہا ہے کیونکہ اس سے قبل مدھو بالا اور ملیکا ادویات کو تھوک دیتی تھیں اور ان کا رویہ ملازمین کے ساتھ بھی خراب ہو جاتا تھا۔
ان کے علاج کے لیے سری لنکا سے ویٹرنری سرجن بدھیکا باندرا کراچی پہنچے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’ٹی بی کے شکار ہاتھیوں کا علاج کرنا شروع سے ہی بہت مشکل رہا ہے اور ہر روز ہمیں مختلف طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’شروع میں جانوروں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا تاہم آہستہ آہستہ مانوس ہو گئے۔‘
بدھیکا باندرا سری لنکا میں درجنوں ہاتھیوں کا علاج کر کے انہیں صحت مند زندگی کی طرف لا چکے ہیں۔
سفاری پارک کے مہوت علی بلوچ نامی ملازم صبح سویرے چاول اور دال پکاتے ہیں، جس میں گڑ کی کافی مقدار بھی ملائی جاتی ہے۔ پھر اس مواد کی گیندیں بنا کر ان میں سوراخ کیے جاتے ہیں جن میں گولیوں کو ڈالا جاتا ہے۔
خیال رہے سال 2009 میں کم عمری میں تنزانیہ سے پکڑی گئی چار افریقی ہتھنیوں کو کراچی لایا گیا تھا۔

سری لنکا سے آئے ویٹرنری ڈاکٹر بدھیکا باندرا اور ان کی ٹیم جانوروں کا علاج کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان میں نور جہاں نامی ہتھنی 2023 میں 17 برس کی عمر میں چل بسی تھی جبکہ سونیا 2024 کے آخر تک زندہ رہی، جس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلا تھا کہ اسے ٹی بی لاحق تھی جو کہ پاکستان میں عام ہے۔
اس کے بعد مدھو بالا اور ملیکا کے ٹیسٹ کیے گئے جو مثبت آئے جس پر سفاری پارک کی ملکیت رکھنے والی سٹی کونسل نے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی ٹیم سے رجوع کیا تھا۔
بدھیکا باندرا کا کہنا ہے کہ انسانوں سے ہاتھیوں کو کوئی متعدی بیماری لگنا معمولی بات نہیں ہے مگر سونیا کی طرح مدھو بالا اور ملیکا میں بھی بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔

معالجین کو امید ہے کہ سال بھر کے علاج کے بعد دونوں جانور صحت مند ہو جائیں گی (فوٹو: اے ایف پی)

انڈس ہاسپٹال کے شعبہ متعدی امراض کی سربراہ نسیم شہاب الدین کا کہنا ہے کہ ’میرے لیے یہ حیران کن بات تھی کہ ہاتھیوں کو بھی ٹی بی لاحق ہوتی ہے، یہ میرے اور طلبہ کے لیے دلچسپ کیس ہے اور ہر کوئی اس کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔‘
چار ڈاکٹروں کی ٹیم ماسک پہن کر اور دوسرے حفاظتی انتظامات کر کے ہتھنیوں کو دوائی کھلاتی ہے تاکہ بیماری کے جراثیم سے بچا جا سکے۔
معالجین نے امید ظاہر کی ہے کہ ایک سال کے عرصے پر مشتمل علاج سے دونوں جانور صحتیاب ہو جائیں گی۔

 

شیئر: