Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مون سون کے دیوانے انڈین تارکینِ وطن کا امارات کے صحرا میں بارش کا تعاقب

جدید کلاؤڈ سیڈنک ٹیکلنالوجی کے استعمال کے باوجود امارات میں سالانہ اوسطاً 50 سے 10 ملی لیٹر تک بارش ہوتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جب محمد سجاد نے ایک دہائی قبل انڈیا سے متحدہ عرب امارات  ہجرت کی، تو انہیں اپنے آبائی علاقے کیرالہ کی مون سون کی بارشیں بہت یاد آئیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک انوکھے مشن کا آغاز کیا: صحرا میں بارش تلاش کرنے کا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ شوقیہ موسمیات دان سیٹلائٹ امیجز، موسمی ڈیٹا اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے پورے ملک میں ممکنہ بارش کے مقامات کا سراغ لگاتے ہیں، اور دیگر مون سون کی یاد میں مبتلا انڈینز کے ساتھ بادلوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
35 سالہ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ سجاد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب میں 2015 میں اگست کے مہینے میں امارات آیا، تو اُس وقت کیرالہ میں مون سون اپنے عروج پر تھا۔  ’مجھے موسمی تبدیلی سے ہم آہنگ ہونا مشکل لگا۔‘

’پھر میں نے امارات میں بارش کی تلاش شروع کی، اور پتہ چلا کہ یہاں بھی گرمیوں میں کہیں کہیں بارش ہوتی ہے۔ تب میں نے سوچا کہ کیوں نہ بارش کے پیچھے جایا جائے، اور اس سے لطف اندوز ہوا جائے۔‘
ہر ہفتے وہ اندازہ لگاتے ہیں کہ کہاں اور کب بارش ہو سکتی ہے، اور انسٹاگرام پر اپنے UAE Weatherm صفحے کے 1.3 لاکھ فالوورز کے لیے ایک مقام تجویز کرتے ہیں جہاں ملاقات ہو سکے۔

وہ باقاعدگی سے صحرا میں اپنی بارش کی مہمات کی ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ بارش سے محبت کرنے والے تمام لوگ، جو بارش کو یاد کرتے ہیں، ایک جگہ جمع ہوں۔
گزشتہ ویک اینڈ پر وہ شارجہ سے تقریباً 100 گاڑیوں کے قافلے کی قیادت کرتے ہوئے صحرا کی طرف نکلے۔
سجاد نے کہا کہ مگر کچھ بھی یقینی نہیں ہوتا۔ ’بارش ہو بھی سکتی ہے، اور نہیں بھی۔ لیکن جب ہوتی ہے، تو وہ ایک ناقابلِ فراموش لمحہ ہوتا ہے۔‘

بارش کی یادیں

گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد جب سجاد کا قافلہ مقررہ مقام پر پہنچا تو اسی وقت موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔

بارش کے دیوانے فوراً گاڑیوں سے باہر نکلے، اور ان کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے جب بارش کے قطرے ان کے گالوں پر بہنے لگے۔
 یہ منظر انہیں گھر کی یاد دلاتا ہے۔ سجاد نے فخر سے کہا، انہیں یاد آتا ہے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔
یو اے ای کی زیادہ تر آبادی غیر ملکیوں پر مشتمل ہے، جن میں تقریباً 35 لاکھ انڈین شامل ہیں، جو کہ خلیجی ملک کی سب سے بڑی تارکینِ وطن کمیونٹی ہے۔

جدید کلاؤڈ سیڈنک ٹیکلنالوجی کے استعمال کے باوجود امارات میں سالانہ اوسطاً 50 سے 10 ملی لیٹر تک بارش ہوتی ہے۔
زیادہ تر بارش سردیوں کے دوران مختصر لیکن شدید طوفانوں کے دوران ہوتی ہے۔
کلیفہ یونیورسٹی ابوظبی میں موسمیات کی ماہر ڈیانا فرانسس کا کہنا ہے  کہ ’اگرچہ طویل مدتی اوسط کم ہے، لیکن شدید موسمی واقعات کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا نتیجہ ہے۔‘
گرمیوں میں ملک کے اکثر علاقوں میں پانچ ملی میٹر سے بھی کم بارش ہوتی ہے، جو عموماً ساحلی علاقوں سے دور اندرونی صحرا میں گرتی ہے، جہاں زیادہ تر لوگوں کو خود جانا پڑتا ہے۔

ایک انڈین خاتون تارک وطن، جنہوں نے اپنا نام صرف ’اناغہ‘ بتایا، اور جو پہلی بار صحرا میں بارش دیکھنے آئی تھیں، نے کہا، ’مجھے بہت خوشی ہے کہ بارش دیکھنے کو ملے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ میرے گھر والے اور دوست سب بارش اور اچھے موسم کا لطف لے رہے ہیں، اور ہم یہاں گرم دھوپ میں رہ رہے ہیں۔
رواں سال امارات کی تاریخ کا سب سے گرم اپریل ریکارڈ کیا گیا۔
اس کے برعکس پچھلے سال اپریل میں امارات میں پچھلے 75 سالوں کی سب سے زیادہ بارش ہوئی، جو کہ ایک دن میں 259.5 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

اس طوفانی بارش میں چار افراد ہلاک ہوئے اور دبئی، جو ملک کا تجارتی مرکز ہے، کئی دن تک مفلوج رہا۔
ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن نیٹ ورک کے سائنسدانوں نے کہا کہ یہ شدید بارشیں ممکنہ طور پرعالمی درجہ حرارت میں اضافے سے بدتر ہوئیں۔
اناغہ نے کہا کہ ’لیکن پچھلے سال ہم اُس بارش کا لطف نہیں اٹھا سکے کیونکہ پورا ملک زیرِ آب آ گیا تھا۔ لیکن اس بار ہم صحرا میں خود بارش کو دیکھیں گے۔‘
 

شیئر: