ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکہ کی غیر ملکی امداد کو ختم کرنے کے فیصلے کے باعث دنیا کے سب سے کمزور ایک کروڑ 40 لاکھ افراد، جن میں ایک تہائی کم عمر بچے شامل ہیں، 2030 تک موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ تحقیق معروف طبی جریدے ’دی لانسیٹ‘ میں شائع ہوئی ہے، جس کے اجرا کا وقت وہی تھا جب اقوامِ متحدہ کی ایک اہم کانفرنس سپین میں منعقد ہو رہی تھی، جہاں عالمی اور کاروباری رہنما امدادی نظام کو سہارا دینے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) دنیا بھر میں 40 فیصد سے زائد انسانی امداد فراہم کرتا تھا۔
مزید پڑھیں
مگر جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد اس ادارے کو عملی طور پر ختم کر دیا گیا۔
صرف دو ہفتے بعد، ٹرمپ کے اس وقت کے قریبی مشیر اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے دعویٰ کیا کہ انہوں نےیو ایس ایڈ کو ’لکڑی کا چورا بنانے والی مشین سے گزار دیا ہے۔‘
صحت پر تباہ کن اثرات
تحقیق کے شریک مصنف بارسلونا انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ سے منسلک ڈیوڈے راسیلا نے خبردار کیا کہ ’یہ کٹوتیاں نہ صرف صحت کے شعبے میں گزشتہ 20 سالہ پیش رفت کو اچانک روک سکتی ہیں بلکہ اسے الٹ بھی سکتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے یہ جھٹکا ایک عالمی وبا یا بڑی جنگ کے برابر ہو گا۔
اعداد و شمار: ایک قیامت خیز منظرنامہ
133 ممالک کے ڈیٹا کی بنیاد پر، تحقیق میں اندازہ لگایا گیا کہ 2001 سے 2021 تک یو ایس ایڈ نے ترقی پذیر ممالک میں 9 کروڑ 18 لاکھ اموات روکیں۔

یہ تعداد دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔
اگر امریکہ نے اپنی امداد میں 83 فیصد کٹوتی جاری رکھی (جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے)، تو 2030 تک ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد کی موت ہو سکتی ہے۔ ان میں 45 لاکھ بچے شامل ہیں، یعنی سالانہ تقریباً 7 لاکھ بچوں کی موت۔
تحقیق کے مطابق، امداد نے درج ذیل بیماریوں سے بچاؤ میں مدد دی:
ایڈز سے متاثرہ ممالک میں 65 فیصد کم اموات ہوئیں جہاں یو ایس ایڈ کی امداد زیادہ تھی۔ ملیریا اور نظرانداز شدہ متعدی بیماریوں سے اموات آدھی رہ گئیں۔
ایکشن اگینسٹ ہنگر نامی این جی او کے نمائندے ڈینش اوگن رووٹ کے مطابق امریکہ کی امداد میں کٹوتی کے باعث جنوبی سوڈان میں ہماری ٹیم 300 افراد سے گھٹ کر صرف 86 رہ گئی ہے۔
’ہم پہلے ہی بچوں کو مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔‘
