Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاید محبت کی فاختہ کے جنازے میں شرکت کا موقع مل جائے

وہ حیرت سے دیکھتا رہ گیا ،وہ لڑکی کمپنی کی مالک نہیں تھی لیکن کرتا دھرتا وہی تھی
* * * * اُم مزمل۔جدہ* * * * *
سارا دن اسے ہوش نہیں رہا سورج غروب ہوا تو وہ کچھ ہوش میں آئی۔ کچھ ساتھ کام کرنے والی لڑکیوں نے اس کے لئے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔ مرہم پٹی بھی چپکے چپکے کرچکی تھیں۔ اسکا جسم ضربات کی شدت سے نیلا ہوچکا تھا۔اس کی ساتھی لڑکیوں نے اسے چند نوالے دیئے ، وہ دوا کھاکر سو گئی۔
آدھی رات کو نیند کے غلبے میں بھی اسکو نماز کی یاد آئی کہ وہ کل فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھ سکی تھی۔ فورا ً وضو کرنے کی ہمت کرکے اٹھی اور نماز پڑھنے لگی۔ اذان کی آواز آئی تو معلوم ہوا صبح ہونے والی ہے۔ اس نے سوچا جس نے یہ راہ دکھائی تھی، وہ تو بے چارا جان سے چلا گیا ہوگا۔ ایک نظر اسکو دیکھنا چاہئے۔ وہ دفتر کی عمارت پہچانتی تھی ۔ وہ گھنے درختوں کی او ٹ لیتے ہوئے پائپ لائنوں کے سلسلے سے گزرکر چھوٹی چھوٹی پگ ڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے بالآخر اس جگہ پہنچ گئی۔ وہ دفتر میں بیٹھا کسی سے فون پر بات کررہا تھا۔ اندار سے آتی آواز نے اسے چونکا دیا۔ وہ کہہ رہا تھا’’، ہنی! تم جانتی نہیں ہو کتنی ذہانت سے میں نے سارا کچھ پلان کیا ،صرف اور صرف تمہارے لئے ۔
بے چاری وہ نوکرانی جو دیکھنے میں سب سے عقل مند اور خوبصورت لگتی تھی، وہ میرے چکر میں آگئی اور پھر باقی کام اس نے آسانی سے کردیا ۔وہ سچ مچ ہمارے خاندانی زیور پہن کراماں کے سامنے چلی گئی، اسے میرے ’’عہد و پیمان ‘‘نے اتنا حوصلہ دے دیا تھا۔ وہ اسی حوصلے کا مظاہرہ کر رہی تھی۔میں اپنی کھڑکی سے اسے دیکھ رہا تھا اور محظوظ ہو رہا تھا۔ یہ کہہ کر اس نے زوردار قہقہہ لگایا۔ وہ چونک کر اردگرد سرگھماکر اطراف میں دیکھنے لگی کہ کوئی موجود تو نہیں۔پھراس کے کانوں تک آواز پہنچی ، وہ انتہائی مسرت سے لبریز آواز میں منظر کشی کررہاتھا کہ جب اسکے کان سے بالا کھینچا گیا تو بے چاری کے دونوں کان کٹ گئے۔ اُف کیا بتاؤں، وہ کیا خوب بہادری دکھا رہی تھی ۔ کانوں سے بالے نوچے جانے کے باوجود وہ ڈٹی رہی۔ اس نے معافی نہیں مانگی۔ امی نے ڈنڈا لیکر خوب اسکی پٹائی کی ۔مجھے لگتا ہے کہ کل تک وہ آخری سانس لے چکی ہوگی۔
جب اس کی پٹائی ہو رہی تھی تو میرا ہنس ہنس کر برا حال ہورہا تھا کہ بے چاری اس گھر کی مالکن بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے کیسے میری محبت کے زعم میں یہ سب کچھ برداشت کر رہی تھی۔ اب فون بند کرتا ہوں، ممکن ہے اس محبت کی فاختہ کے جنازے میں شرکت کرنے کا موقع مل جائے۔ چند سال گزرنے میں کوئی زیادہ وقت کا احساس نہیں ہوا۔ وہ محنت کررہا تھا مگر اس کا کاروبارٹھپ ہوتا جارہا تھا۔ پرانے لوگوں کی منت سماجت کرتا کہ میں بیرون ملک ہوں یا ملک میں لیکن آپ لوگوں کو تو درست فیصلے کرنے چاہئیں۔ پرانے لوگوں میں سے کسی ایک نے میٹنگ کے دوران کہا،کہ کیا کریں سر! ہمارے مقابلے پر کوئی بڑے لوگ نہیں جو بہت پرانے ہوں لیکن نجانے اس لڑکی میں کون سی خوبی یا ذہانت ہے کہ اسکے بنائے اداروں کے لوگ اسکا ہر کام میں ساتھ دینے اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔
چند سالوں میں اس نے سرداروں اوروڈیروںکیخلاف اتنا زبردست کام کیا ہے۔ اس کو اس طرح سمجھا یا جاسکتا ہے کہ ایک لکیر کو کاٹے بغیر کیسے چھوٹا کرسکتے ہیں تو اسکا جواب ہوگا کہ اسکے برابر میں اس سے بھی زیادہ لمبی لیکر کھینچ دیں تو پہلی لکیر کی لمبائی خود بخود کم ہوجائے گی۔ وہ حیرت سے منہ کھولے پوچھ رہاتھا، لڑکی !کون لڑکی؟ اسکے ساتھی بتانے لگے کہ وہ تو ایک لڑکی ہے لیکن شاید یہاں کی معلومات اسے بہت ہے۔ جب ہی اس نے اس علاقے کی اکثر زمینیں کاشت کاری کرنے والوں کے نام کردی ہیں۔ صنعت و حرفت کے مختلف کاموں میں ترقی ہورہی ہے۔ ہمارے علاقے کے اکثر لوگوںسے وہ معاونت کررہی ہیں۔ لوگوں کے نام پر اکاؤنٹس ہیں، وہ اجتماعی بہبود کا کام کرتی ہیں ، ان کے اپنے نام پر کوئی جائداد نہیں لیکن ان کے ہی ایک ساتھی ہم جماعت نے آپ کے گھر کو بھی قرضے دینے کیلئے اپنے نام گروی رکھ لیا ہے ۔
آج وہ حیرانی سے تفصیل پوچھ بیٹھا تھا کیونکہ وہ تو اپنے لوگوں میں کام کا کہہ کر اکثر چلا جاتا تھا۔ اب اسے حد سے زیادہ خسارے کی وجہ معلوم کرنے کی ضرورت پڑی تو یہ باتیں معلوم ہوئیں۔ وہ حیرت سے دیکھتا رہ گیا ۔وہ لڑکی کمپنی کی مالک نہیں تھی لیکن کرتا دھرتا وہی تھی کیونکہ وہ جائداد، کمپنی کے کاغذات اور دوسری چیزیں دوسروں کے نام کردیا کرتی تھی لیکن ہر کوئی اس بات سے آگاہ تھا کہ ہر چیز اسکی ہے اور وہ اپنے نام کوئی جائداد نہیں بناتی۔ یہی وجہ تھی کہ کمپنی کا مالک بھی اسکے احترام میں کھڑا تھا۔ وہ سامنے سے آتی نظر آ ئی تو وہ حیران رہ گیا۔ وہ لڑکی کااصل نام تک نہیں جانتا تھا وہ تو فقط اتنی بات جانتا تھا کہ اسکو گھر پر کس نام سے پکارتے ہیں۔ وہ کیسے جان سکتا تھا کہ جس کو مہرہ بناکر اس نے اپنی مرضی کی شادی کی راہ آسان کی تھی، وہ یونیورسٹی میں کس نام سے جانی جاتی ہے۔
بس وہ ایک لمحہ تھا جب وہ جان چکاتھا کہ مکافات عمل شروع ہوچکا ہے ۔ کبھی کوئی اوپر کی جانب چلا جاتا ہے اور کوئی نیچے کی جانب۔ جس کو وہ بھول چکا تھا، آج وہ خوف کی علامت بنی اسکے سامنے تھی جس نے اس سے ہر چیز چھین لی تھی اور جو کچھ باقی رہ گیا تھا، وہ جلد ہی چھین لینے والی تھی۔ وہ اپنے اداروں میں ہر طلباوطالبات کو یہ بات بتاتی تھی کہ کسی پر بھروسہ کرنے سے پہلے اس ذات پر بھروسہ کرو جس کا حق ہم پر سب سے زیادہ ہے۔

شیئر: