Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ مہم، اب تک کتنی ملازمتیں ختم کر دی گئی ہیں؟

وزیرِاعظم شہباز شریف نے 21 جون 2024 کو کمیٹی برائے رائٹ سائزنگ تشکیل دی تھی۔ (فائل فوٹو: آن لائن)
وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ مہم جسے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی انتظامی و ادارہ جاتی اصلاحات قرار دیا جا رہا ہے، سات مرحلوں پر مشتمل منصوبے کے باوجود محض دو مراحل تک محدود رہی ہے۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کی ہدایت پر جون 2024 میں قائم ہونے والی اعلٰی سطح کی کمیٹی نے وزارتوں اور محکموں کے انضمام، اداروں کی تحلیل، نجی و صوبائی شعبے کو ذمہ داریوں کی منتقلی اور ہزاروں سرکاری آسامیاں ختم کرنے جیسے بڑے فیصلے کیے، مگر ایک برس گزرنے کے باوجود اصلاحاتی ایجنڈے کا بیشتر حصہ کاغذی کارروائی سے آگے نہ بڑھ سکا۔
وزیرِاعظم نے 21 جون 2024 کو کمیٹی برائے رائٹ سائزنگ تشکیل دی تھی جس کی سربراہی وزیرِ خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کر رہے ہیں۔ اس کمیٹی میں منصوبہ بندی، اقتصادی امور، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کابینہ و اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹریز، قومی اسمبلی کے رکن بلال اظہر کیانی، ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر فرخ سلیم، پروفیسر اعجاز نبی اور ٹیکنالوجی ماہر تانیا ایدرس شامل ہیں۔ اس کمیٹی کا مینڈیٹ وفاقی سرکاری شعبے کے ایسے کاموں کی نشاندہی کرنا ہے جو نجی شعبے یا صوبوں کو منتقل کیے جا سکتے ہیں، اداروں کو ضم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ وفاقی سرکاری اداروں میں عرصہ دراز سے خالی یا اضافی آسامیوں کی نشاندہی بھی کرنا تھا جن کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اس کمیٹی کی معاونت کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بھی بنائی گئی جس کی سربراہی سفیر برائے سرمایہ کاری سلمان احمد کر رہے ہیں، جبکہ دیگر ارکان میں بلال اظہر کیانی، پاور ڈویژن کے سیکریٹری ڈاکٹر فخر عالم عرفان، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی سپیشل سیکریٹری سارہ سعید اور کابینہ ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹری سلمان قیوم خان شامل ہیں۔ ان کا کام ہر وزارت یا ادارے کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لے کر مرکزی کمیٹی کو بصیرت فراہم کرنا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب کابینہ ڈویژن کی عمل درآمد رپورٹ کے مطابق اس کمیٹی نے اصلاحاتی عمل کو سات مراحل میں تقسیم کیا تھا جن میں پہلے دو مراحل کابینہ سے منظور ہو کر عمل درآمد کے مرحلے پر ہیں جبکہ دیگر پانچ ابھی زیرِغور ہیں۔ اس ضم و انضمام کے عمل میں ذمہ داریوں کی منتقلی، ملازمین کی تنظیم نو اور اداروں کو ضم یا ختم کرنا شامل ہیں۔
پہلے مرحلے میں چھ وزارتوں/ڈویژنوں کے ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ سب سے پہلے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن کو غیرفعال قرار دیا گیا جو دراصل سنہ 2018 ہی میں ختم کیا جا چکا تھا۔ موجودہ اصلاحات میں اسی فیصلے کی توثیق اور عمل درآمد کی تکمیل ہوئی۔
وزارتِ صنعت و پیداوار کے تحت پاکستان سٹیل ملز کے معاملے میں حکومت نے خسارے اور بندش کے باعث عملے میں بڑی کمی کی۔ فروری 2025 میں مزید 1350 ملازمین فارغ کیے گئے، اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے مالی سال25-2024 کے لیے تنخواہوں کی ادائیگی کی منظوری بھی دی۔
یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے بارے میں سنہ 2024 میں کام شروع ہوا اور پھر باقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعے 31 جولائی 2025 کو ادارہ بند کرنے کا حکومتی فیصلہ جاری ہوا۔ اس پورے عمل میں یومیہ اجرت والے 2237 ملازمین سب سے پہلے متاثر ہونے والوں میں شامل تھے۔
صنعتی ادارہ جاتی سطح پر سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) کو وزیرِاعظم آفس کے ماتحت لایا گیا، جبکہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز اتھارٹی اور پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن سمیت خصوصی/اقتصادی زونز کے فریم ورک کو ایک جامع ریگولیٹر نیشنل انڈسٹریل ڈویلپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت یکجا کرنے کی منظوری ہوئی۔
وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی و مواصلات میں نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ختم کر دیا گیا۔ ورچوئل یونیورسٹی کو وزارتِ وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ماتحت منتقل کیا گیا۔ نیشنل ٹیلی مواصلات کارپوریشن (این ٹی سی) کے عملے میں نمایاں کمی (تقریباً نصف تک) کی منظوری دی گئی، اور پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی کے قیام کے لیے قانونی مسودہ تیار کرنے کی سمت پیش رفت ہوئی۔
وزارتِ کشمیر امور و گلگت بلتستان اور وزارتِ سرحدی امور (سیفران) کو ضم کر کے مشترکہ وزارت تشکیل دی گئی، جب کہ جموں و کشمیر مہاجرینِ بہبود/بحالی تنظیم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
وزارتِ قومی صحت خدمات میں ہیومن آرگنز ٹرانسپلانٹ اتھارٹی اور اسلام آباد بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے اختیارات اسلام آباد ہیلتھ کیئر ریگولیٹری اتھارٹی میں ضم کرنے کی منظوری دی گئی۔
اسی طرح وزارت انسداد منشیات کو وزارت داخلہ جبکہ ہوابازی ڈویژن کو وزارت دفاع میں ضم کر دیا گیا ہے۔
دوسرے مرحلے میں چار بڑی وزارتوں کی تشکیلِ نو منظور ہوئی۔ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے کئی تحقیقی اداروں اور اتھارٹیز کو یا تو ختم کرنے یا جامعات کے ساتھ ضم کرنے کی منظوری دی گئی۔ جن میں کونسل فار ورکس اینڈ ہاؤسنگ ریسرچ اور پاکستان کونسل برائے سائنس و ٹیکنالوجی کو بند کرنے اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانکس کو قومی جامعات کے ساتھ ملانے کی سکیم آئی۔ اس کے ساتھ پاکستان کونسل برائے قابلِ تجدید توانائی ٹیکنالوجیز کے کردار کو تعلیمی/تحقیقی اداروں سے جوڑنے اور نسٹ، نیوٹیک، کامسیٹس جیسے بڑے اداروں کو برقرار رکھتے ہوئے مالی خود کفالت کی حکمتِ عملی نافذ کرنے کی ہدایات جاری ہوئیں۔
وزارتِ تجارت کے لیے یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ بیرونِ ملک صرف وہی تجارتی مشن برقرار رہیں گے جن کی کارکردگی براہِ راست برآمدات میں اضافے کا باعث بن رہی ہو۔ دو برس کے وقفے سے تیسرے فریق کے ذریعے باقاعدہ پرفارمنس آڈٹ ہو گا، جبکہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان پر بھی آزادانہ کارکردگی جائزے اور اصلاحات کی سفارشات منظور کی گئیں۔
وزارتِ ہاؤسنگ و ورکس میں پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کو ختم کرنے کی سمت پیش رفت اور فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی کو زیادہ خود مختار/خود انحصار ڈھانچے پر منتقل کرنے کے فیصلے کیے گئے۔
وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق میں بیج کے شعبے کی بڑی تنظیم نو ہوئی ہے۔ فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کو نئے قائم شدہ نیشنل سیڈ ڈویلپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (این ایس ڈی آر اے) کے ساتھ ضم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اسی طرح لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ بورڈ کے بنیادی افعال صوبوں کو منتقل کرنے اور ادارے کو ختم کرنے کی منظوری سامنے آئی۔
اگرچہ حکومت جون 2025 تک اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کی تکمیل چاہتی تھی اور اس حوالے سے وزیر خزانہ کئی بار کہہ چکے تھے کہ جون تک ڈیڑھ لاکھ آسامیاں ختم کر دی جائیں گی لیکن یہ کم سست روی کا شکار ہوا اور تیسرے سے ساتویں مرحلے کے حوالے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں دکھائی جا سکی۔
تیسرے مرحلے میں توانائی، وفاقی تعلیم اور اطلاعات و نشریات شامل ہیں۔ چوتھے میں ریلوے، کمیونیکیشن اور غربت کے خاتمے کے ادارے ہیں۔ پانچویں میں کابینہ، اسٹیبلشمنٹ اور نجکاری، چھٹے میں موسمیاتی تبدیلی، انسانی حقوق اور بین الصوبائی رابطہ، جبکہ ساتویں میں قانون و انصاف اور میری ٹائم افیئرز شامل ہیں

ملازمین پر اثرات اور قانونی اقدامات

پہلے دو مراحل کے دوران 4235 ملازمین متاثر ہوئے جن میں 65 مستقل آسامیاں ختم کی گئیں جبکہ پاکستان سٹیل کے 1217 مستقل، 2237 یومیہ اجرت والے اور 149 کنٹریکٹ ملازمین کو نوکریوں سے نکالا گیا۔ ملازمین کے تحفظ کے لیے ایک جوڈیشل کمیٹی اور سول سروس ریفارمز کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ قانونی سطح پر رولز آف بزنس 1973 میں ترمیم کی گئی، اور سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے وزارتوں کے نئے نام اور ڈھانچے کی تصدیق کی گئی ہے، جیسے کہ وزارت داخلہ کا نام بدل کر وزارت داخلہ اور انسداد منشیات کر دیا گیا ہے۔
رائٹ سائزنگ کی اس مہم میں کچھ مثبت پہلو بے شک نظر آتے ہیں، مگر سابق ممبر منصوبہ بندی کمیشن ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات بہت بڑی اور جارحانہ ہیں، اور ان کا اثر دیکھنے کے لیے 20 برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے، جو کسی حکومت کے دور کو تجاوز کر جاتا ہے۔ سیاسی حکومتوں کے تیز رفتار فیصلوں میں یہ اقدامات کامیابی سے ہمکنار ہونا آسان نہیں۔
تاہم اس حوالے سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملازم کو اچانک بے روزگار نہیں کیا گیا اور نہ ہی مستقبل میں کیا جائے گا۔ یہ رائٹ سائزنگ قانونی فریم ورک کے اندر ہو گی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وفاقی حکومت 42 وزارتوں اور 400 منسلک اداروں کا جائزہ لے رہی ہے، اور اکثر تجاویز کو کابینہ کی منظوری مل چکی ہے۔ تاہم مالی اثرات کا فوری تخمینہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ وفاقی حکومت نے ڈھانچے کو مختصر اور کارکردگی کو بڑھانے کی سمت میں ٹھوس قدم اٹھایا ہے، لیکن اصلاح کا پہیہ بدلنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ اصلاحات کے نفاذ میں سیاسی استحکام، بیوروکریسی کی مزاحمت اور حقیقی نتائج کا عوامی تجربہ کلیدی عناصر ہیں۔ اصلاحات پر عمل درآمد سیاسی حمایت کے بغیر کامیاب ہونے میں دشواری ہوگی۔

 

شیئر: