Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا گلزار اب بھی مینا کماری کے فدیے کے طور پر روزے رکھتے ہیں؟

مینا کماری نے گلزار کی ہدایت کاری میں بننے والی پہلی فلم ’میرے اپنے‘ میں 75 سالہ خاتون کا کردار ادا کیا۔ (فائل فوٹو: بالی وڈ شادیز)
معروف مصور، خطاط اور شاعر صادقین نے ایک رباعی کہی تھی جسے ان کا خود کے بارے میں اعتراف مانا جاتا ہے۔ یہ رباعی کچھ اس طرح ہے:
میں حُسن کی جس انجمن ناز میں ہوں
گم ہوں تو مگر اپنے ہی انداز میں ہوں
میں شاعر و خطاط و مصور کے سوا
اور بھی بہت کچھ ہوں مگر راز میں ہوں
یہ ربا‏عی اور بطور خاص آخری دو مصرعے بہت لوگوں کی زندگی پر صادق نظر آتے ہیں لیکن ہم آج جس شخصیت کی بات کر رہے ہیں انہیں الفاظ اور اس کے صوتی آہنگ کا جادوگر کہا جاتا ہے۔
وہ بطور فلم ساز اور نغمہ نگار انڈیا کے افق پر ابھرے لیکن انہوں نے ادب سے اپنی وابستگی کو کبھی بھی ترک نہیں کیا۔
ہم انہیں ان کے یوم پیدائش 18 اگست کے موقعے سے یاد کر رہے ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل ضلع جہلم کے گاؤں دِینا میں سمپورن سنگھ کالرا کے نام سے پیدا ہوئے، لیکن تقسیم ہند کے بعد ان پر علم و حکمت کی دیوی اتنی مہربان ہوئی کہ وہ گلزار بن کر بالی وڈ پر چھا گئے۔
وہ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، نغمہ نگار، سکرپٹ رائٹر، ڈرامہ نگار، فلم پروڈیوسر، مکالمہ نگار، ہدایت کار اور بہت کچھ رہے ہیں مگر ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو زیادہ تر صیغہ راز میں رہی ہیں۔
گلزار کے بارے میں اب بہت سی باتیں راز نہیں رہیں جن میں سے ان کی ادکارہ مینا کماری کے لیے محبت بھی شامل ہے۔ لیکن اس سے قبل ہم ان کی زندگی کا مختصر احوال جانتے ہیں۔
جب سمپورن سنگھ ابھی شیرخوار ہی تھے کہ ماں کا سایہ سر سے اٹھ گيا اور سوتیلی ماں کی آمد کے بعد وہ گھر میں رہنے کے بجائے والد کی دکان پر وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔ اسی دوران انہیں کہانیوں میں دلچسپی پیدا ہوئی اور اس زمانے میں بنگالی ادب اپنے عروج پر تھا اس لیے وہ اس کی جانب مائل ہوئے۔ انہیں بنگالی زبان و ثقافت سے ایک طرح کی محبت ہو گئی جو بعد میں راکھی سے ان کی شادی پر منتج ہوئی۔
پھر تقسیم ہند کا جانکاہ واقعہ رونما ہوا اور انہیں ترک مکانی پر مجبور ہونا پڑا، پہلے امرتسر اور پھر دلی پہنچے لیکن حالات نے انہیں بمبئی کا رخ کرنے پر مجبور کیا جہاں وہ موٹر گیراج میں کام کرنے لگے۔
لیکن ان میں جو ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی تھی اور شاعر بننے کا جو شوق تھا وہ انہیں ادبی محفلوں میں لے گیا، اور وہیں ان کی ملاقات اپنے زمانے کے معروف نغمہ نگار شیلندر سے ہوئی اور یہی دوستی انہیں فلم انڈسٹری میں لے آئی۔
لیکن اس کی بھی ایک کہانی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب معروف فلم ساز بمل رائے سنہ 1960 کی دہائی کی ابتدا میں فلم ’بندنی‘ بنا رہے تھے تو اس کے لیے انہوں نے ایس ڈی برمن کو موسیقار کے طور پر لیا تھا اور گیت کار یا نغمہ نگار کے طور پر اس فلم کے لیے شیلندر تھے۔ لیکن کسی بات پر ان دونوں کے درمیان ناچاقی پیدا ہو گئی اور شیلندر نے فلم سے الگ ہو گئے۔
تاہم انہوں نے گلزار کو بمل رائے کے پاس بھیجا اور انہیں ایک موقع دینے کے لیے کہا۔ بمل رائے اور ایس ڈی برمن نے انہیں گیت کے ماحول کے بارے میں بتایا تو انہوں نے جو گیت لکھا اس نے انہیں واپس گیراج نہ جانے دیا۔
یہ معروف گیت تھا: ’مورا گورا انگ لئی لے، موہے شام رنگ دیے دے۔‘ بعد میں برمن اور شیلندر کی ناچاقی دور ہوئی اور بقیہ گیت انہوں نے ہی لکھے۔ لیکن اس دوران بمل رائے کو گلزار سے لگاؤ ہو گیا تھا اور انہوں نے ان کی صلاحیت کے پیش نظر بزرگانہ انداز میں انہیں واپس گیراج میں جانے سے منع کیا اور انہیں اپنے ساتھ کام پر رکھ لیا اور باقی تاریخ ہے۔ ’بندنی‘ سنہ 1963 میں ریلیز ہوئی۔
بمل رائے کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے ان کی ملاقات اپنے زمانے کی معروف اداکارہ اور ’ٹریجڈی کوئن‘ مینا کماری سے ہوئی اور ان کے درمیان شعر و سخن سے دلچسپی کی وجہ سے ایک باہمی ربط پیدا ہو گیا۔اور ان کی یہ دوستی مینا کماری کی موت تک قائم رہی۔
کہا جاتا ہے کہ مینا کماری جب بیماری پڑیں تو وہ ان کو وقت پر دوا پلانے کے لیے ان کے گھر جاتے تھے۔ ان کی کمال امروہی سے شادی بھی ان کی بیماری کا نتیجہ تھی جبکہ کمال بلاناغہ ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔

مینا کماری کے لیے روزے

کہتے ہیں کہ بیماری کے دوران رمضان کا مہینہ آ گیا تو مینا کماری نے روزے رکھنے کی ضد کی جس پر گلزار نے کہا کہ ویسے بھی اسلام میں مریضوں پر روزے فرض نہیں اور آپ فدیہ دے سکتی ہیں، لیکن بیماری میں ان کی مذہبی میلان نے گلزار کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ان کے بدلے روزے وہ رکھیں گے۔
چنانچہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ مینا کماری کی موت کے بعد بھی گلزار ان کے لیے ہر برس رمضان میں روزے رکھتے رہے۔ اگر قسمت سے کبھی گلزار سے ملاقات ہوئی تو ان سے یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ اب 91 سال کی عمر میں جب وہ خود کمزور ہیں تو کیا وہ اب بھی روز رکھ رہے ہیں یا فدیہ دے کر اس عہد کی ادائیگی کر رہے ہیں۔
مینا کماری اور گلزار کی ملاقات فلم ’بے نظیر‘ کی شوٹنگ کے دوران ہوئی تھی جو کہ سنہ 1964 میں منظر عام پر آئی۔ یہ فلم بمل رائے بنا رہے تھے جبکہ مینا کماری اس کی ہیروئن تھیں۔
گلزار، مینا کماری کے اس وقت کے ساتھی تھے جب ان کے شوہر کمال امروہی نے ان سے تعلق قطع کر لیا تھا اور مینا کماری کی صحت بگڑ رہی تھی۔
گلزار کا مینا کماری سے لگاؤ صرف ان کی نظموں کی اشاعت تک ہی محدود نہیں تھا جو انہوں نے ان کی موت کے بعد ’تنہا چاند‘ کے عنوان سے کیا کیونکہ انہوں نے اپنی ساری ادبی کاوشیں گلزار کے حوالے کر دی تھیں۔
مینا کماری نے گلزار کی ہدایت کاری میں بننے والی پہلی فلم ’میرے اپنے‘ میں 75 سالہ خاتون کا کردار ادا کیا۔
’میرے اپنے‘ میں مینا کماری کے ساتھ کام کرنے پر گلزار نے کہا کہ بنگالی فلم ’اپنجان میں چھایا دیوی نے بوڑھی عورت کی تصویر کشی کی تھی، وہ ہندی روانی سے بول سکتی تھیں اور اس لیے اس کردار کو دوبارہ ادا کر سکتی تھیں۔ لیکن فلمساز این سی سپی صاحب نمی کو کاسٹ کرنے کے خواہاں تھے۔ پورے احترام کے ساتھ، میں نے اس انتخاب پر اختلاف کیا اور اصرار کیا کہ چھایا دیوی زیادہ مناسب ہوں گی۔ تو انھوں نے مجھے کسی اور کے بارے میں سوچنے کو کہا، اور یہ وہ وقت تھا جب میں نے سپی صاحب کے بڑے بیٹے رومو کی تجویز پر مینا کماری کا نام تجویز کیا۔‘
’حالانکہ وہ ان دنوں فلم کی پوری شوٹنگ کے دوران شدید بیمار تھیں، ان کا درجہ حرارت 100 سے 101 ڈگری تک رہتا تھا لیکن پھر بھی وہ سیٹ پر وقت کی پابندی کے ساتھ آتی تھیں اور جب اپنے کردار ادا کرنے کی بات ہوتی اور کیمرے اور لائٹس آن ہوتے تو وہ پھر بیمار نہیں رہتی تھیں۔‘
میناکماری کی موت کے بعد گلزار نے اس زمانے کی خوبصورت اداکارہ راکھی سے شادی کی لیکن یہ شادی زیادہ دنوں تک نہ چل سکی اور دونوں بغیر طلاق کے آج تک الگ الگ رہتے ہیں۔
ان کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام انہوں نے میگھنا رکھا اور وہ آج میگھنا گلزار کے نام سے فلم انڈسٹری پر اپنی چھاپ چھوڑ رہی ہیں۔
سنہ 1971 میں آنے والی فلم ’میرے اپنے‘ کے بعد گلزار نے بہت سی یادگار فلمیں دیں جن میں جیتندر اور جیا بھادری کی فلم ’پریچے‘، سنجیو کمار اور جیا بھادری کی فلم ’کوشش‘ جس میں دونوں گونگے بہرے ہوتے ہیں، خواجہ احمد عباس کی کہانی پر فلم ’اچانک‘، ’آندھی‘، ’موسم‘ اور ’انگور‘ جیسی فلمیں شامل ہیں۔
گلزار کو ان کی ادبی خدمات کے لیے انڈیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ’گیان پیٹھ‘ دیا گیا جبکہ انہیں چھ بار قومی ایوارڈ سے نوازا گیا اور مختلف زمروں میں 22 بار فلم فیئر ایوارڈ دیا گيا۔
یہی نہیں انہیں ’سلم ڈاگ ملنیئر‘ کے گيت ’جے ہو‘ کے لیے اکیڈمی ایوارڈ یعنی آسکر بھی مل چکا ہے۔ اسی فلم کے لیے انہیں ’گریمی ایوارڈ‘ کا حقدار بھی قرار دیا گیا۔ انہیں انڈیا کا تیسرا سب سے بڑا شہری ایوارڈ ’پدم بھوشن‘ بھی مل چکا ہے۔
ان تمام ایوارڈز کو دیکھنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کی متنوع صلاحیت کا خاطر خواہ اعتراف نہیں ہے۔

 

شیئر: