Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’کو ئی سنتا ہی نہیں بو ل رہی ہوں کب سے‘‘

فضائی میزبان کے چہرے پریاسیت کی پرچھائیاں تھیں جنہیں میک اپ سے چھپانے کی نیم ناکام کوشش کی گئی تھی
* * * * تسنیم امجد۔ ریاض* * * *
کیا حقوق نسواں محض مردوں کے شانہ بشانہ کام کر نے کا نام ہے ؟ یہ سوال آج ’’دورانِ پرواز ‘‘بار بار ہمارے ذہن میں گردش کر رہا تھا ۔اسی دوران طیارے کی چھت میں نصب اسپیکرز سے قدرے نسوانی آواز میں سنائی دینے والے اعلان نے پردہ ہائے سماعت کو مرتعش کیاتو صوتی لہروں کے اثرات یوں مرتسم ہوئے کہ ’’اپنی سیٹ بیلٹ با ندھ لیجئے، پشت سیدھی رکھئے‘‘۔
اس تخاطب نے ہماری ذہنی مصروفیت کا رخ بدلا ۔ ابھی تمام تر کیفیات اپنی سابقہ حالت پر بحال نہیں ہو پائی تھیں کہ ایک مرتبہ پھرائیر ہوسٹس کی آواز نے چونکا دیاجو استفسار کر رہی تھی کہ ’’آپ کونسا جوس لیں گی؟‘‘ ، کسی قسم کی لب کشائی کرنے سے قبل ہم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جس پریاسیت کی پرچھائیاں دکھائی دے رہی تھیں جنہیں میک اپ کی دمک سے چھپانے کی نیم ناکام کوشش کی گئی تھی۔ پرواز سوئے منزل رواں دواں تھی۔ہمارے تجسس نے بالآخر فضائی میزبان کو ہم سے محوِ کلام ہونے پر مجبور کر ہی دیا ۔ یوں ہمیں خود بخود ہی بعض سوالوں کے جواب مل گئے۔ فضائی میزبان ہمارے ا یک سوال کے جواب میں گویا ہوئی کہ : ’’میری ڈیوٹی تو گرا ئو نڈ پر ہے لیکن مجھے اور اکانمی سیکشن کی کچھ ائیر ہوسٹسز کو ایمر جنسی میں فضائی میزبانی کے لئے بلایا گیا ہے‘‘ ۔اس نے بتایا کہ مجھے اسی طرح کبھی زمین اور کبھی ہوائو ں کے سنگ ا ڑ تے ہوئے 25برس بیت چکے ہیں اس کے باوجود میں اپنے گھریلو حالات کو خاطر خواہ انداز میں کوئی رنگ نہیں دے سکی۔میں نے زندگی میں بس ایک ہے چیز سیکھی ہے اور وہ ہے ’’کام ،کام اور کام‘‘، زندہ رہنے کے لئے میں نے یہی سیکھاہے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی کے بعد جب گھر پہنچتی ہوں تو سب سے پہلے گھر کو اس کی اصل حالت میں لاتی ہوں، پھر شو ہر کے لئے ایک کپ چائے بنا کر ان سے 24 گھنٹے کی مصروفیات کے بارے میں پو چھنے بیٹھ جاتی ہو ں ۔وہ اچھے موڈ میں ہو ں تو جو اب مل جاتا ہے ورنہ کو ئی نہ کو ئی بہانہ سننا پڑتا ہے کہ فی ا لحال مو ڈ نہیں، پھر بات کریں گے۔
میں بعض اوقات سوچتی ہو ں کہ میرے شوہر نامدار تو صبح 8بجے سے سہ پہر4بجے تک کام کرتے ہیں پھر بھی ایسی اکتا ہٹ ؟‘‘ اس فضائی ’’خدمتگار‘‘ کا دل چا ہ رہا تھا کہ وہ ہم سے خوب باتیں کرے لیکن گھڑی پر ایک نظر ڈال کروہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہو ئی، شایداس کی ڈیو ٹی کے احساس نے اسے جھنجوڑ دیا تھا۔ ہم سو چنے لگے کہ کیا آج بھی عورت حقوق یا فتہ ہو کر اپنی بقاکی جنگ لڑ رہی ہے یا حقوق نسواں کے نام نہاد علمبر دار کھو کھلے نعرو ں کے ذریعے ہی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں؟ عورت، مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے شاید یہ سمجھ رہی ہے کہ اسے تمام حقوق میسر آ گئے۔ مرد و ںکے پیچھے چلنے کو وہ آزادی سمجھ بیٹھی ہے۔
پاکستان میں شہر اقتدار کے سب سے بڑے مال کے تہ خانے کی کار پا رکنگ میں سیکیور ٹی یو نیفارم زیب تن کئے ایک لا غر سی خاتون ہمیں آج یاد آ رہی ہے ۔چوبی اسٹول پر بیٹھی یہ عورت آنے جانے والوں کو تک رہی تھی۔ اس کے ہمراہ گو کہ ایک سیکیو ر ٹی گارڈ بھی تھا لیکن وہ ایک طرف کھڑا اپنے مو بائل سے کھیل رہا تھا ۔اس نے بھی ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ میری ڈیو ٹی11 بجے دن سے لے کررات 11 بجے تک رہتی ہے ۔بہت تھک جا تی ہو ں لیکن کیا کروں بچوں کی اسکول کی فیسو ں کے لئے یہ سب کچھ کر نا پڑتا ہے۔
میا ں کی تنخواہ سے صرف گھر چلتا ہے۔بچے پڑھ جا ئیں گے تو ان کا مستقبل سنور جا ئے گا ۔ ہم نے دیکھا کہ بچوں کا ذکر کرتے ہوئے اس خاتون کی آنکھو ں میں مستقبل کی امید کے دیئے روشن ہوگئے،ممتا کا جذبۂ بے مثال ایک لمحے کے لئے اس ’’ماں‘‘کے چہرے کو شگفتگی دے گیا۔کو ئی8 برس قبل ہمیں یو کے کی کار پار کنگ جو اسی طرح بیسمنٹ میں تھی،یاد آئی جہا ں ایک سیکیو ر ٹی گارڈلڑکی ،مد ھم سی رو شنی میں بیٹھی اپنے فرا ئض ادا کر رہی تھی۔تب ہمیں خوف سے جھر جھری سی آئی ۔آج وہی احساسات پھر سے عود کر آئے کہ اسے تو کو ئی ایک دھکا دے کر بآسانی گرا دے گا۔ اس کے ساتھ نہ جانے کیا کیا سوچیں لئے ہم مال میں چلے گئے۔ در حقیقت بیداری اور روشن خیالی کے نام پر فطری قوانین کو مسخ کیا جا رہا ہے ۔آج کی عورت خاموشی سے شمع کی مانند کہیں جل رہی ہے اور کہیں بجھ رہی ہے کیو نکہ آج اس کے سامنے اور کو ئی راستہ ہی نہیں۔وہ وا ویلا کر تی ہے تو اسے حقوق کے نام پر چپ کرا دیا جا تا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
کو ئی سنتا ہی نہیں بو ل رہی ہوں کب سے
تیز آندھی میں کھڑی ڈول رہی کب سے
زندگی کیا ہے فقط تیز ہوا کی خواہش
جس کو کھڑکی کی طرح کھول رہی ہوں کب سے
آج کی عورت ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں اس کے لئے منزل کا تعین مشکل ہو رہا ہے ۔وطن عزیزپاکستان ، اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ہمارے دین اسلام نے عو رت کو بلند مقام عطا فرمایا ہے۔اس کی ذمہ دار یا ں وا ضح کی ہیں۔عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ مثالی بیوی اور ما ںثابت ہو۔اگر ہم اچھے اور برے کا معیار مغرب کو بنا لیں گے تو نقصان کے خود ہی ذمہ دار ہو ں گے ۔مسلمان عو رت صرف اور صرف اسلام کے زریں اصو لو ں پر عمل کرے تو دنیا کی تمام عو رتو ں سے ممتاز ہو سکتی ہے،اپنی تہذ یب کا لو ہا منوا سکتی ہے۔اس طرح سیکیو ر ٹی کے فرا ئض کیا اس کے بس میں ہیں؟ دین اسلام چا ہتا ہے کہ عورت تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہو تا کہ وہ نسلو ں کو سنوار سکے۔
تحر یر و تقریر اس کا مشغلہ ہو ۔ عورت کے ذہن میںنجا نے یہ سوچ کیو ں سما ئی کہ وہ کمانے میں بھی مر د کی برا بری کرے۔وہ اس خواہ مخواہ کے احساس محرومی کا شکار نہ جانے کب اور کیو ں ہو ئی؟بقول شاعر:
تمام عمر اسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کہیں شاخ چمن پہ بار نہ ہو
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ہمیں آج کا مرد با تو ں با تو ں میں احساس دلاتا ہے کہ وہ تنہا گھر کا خرچ نہیں اٹھا سکتا ۔تھک جا تا ہے۔ ہمارے نصیب میں تو پیدا ئش کے بعد سے ہی محرومی لکھی ہے۔بہن اور بیٹی کے روپ میں ہم لحا فو ں میں منہ چھپا کر رونے کی عادی ہو جا تی ہیں۔حسر تو ں کی فہر ست با بل کی دہلیز سے ہی مرقوم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔بہو کا روپ بھی ہما رے لئے چیلنج لے کر آتا ہے۔کبھی ساس کا ظلم ، کبھی چو لھا پھٹنے کے بہانے موت اور کبھی شو ہر کی جانب سے زدو کوب کیاجانا۔کیا عورت ہو نا ہی ہماری خطا ہے ؟اکثرخواتین ایسی ہیں جن کی عمر طلاق کی دھمکیا ں سنتے سنتے گزر جا تی ہے۔
کبھی لباس پر استری صحیح نہ ہونے پر اور کبھی کھانے میں نمک کم ہونے پر سخت سست سنائی جاتی ہیں۔ شوہر کے سامنے ہاتھ جو ڑکر زند گی گزارنا بھی کو ئی زندگی ہے۔ آج کا مرداپنے تمام مسائل کے حل کا ذمہ دار عورت کو ہی سمجھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر تحمل مزاجی سے کام لیا جائے تو زندگی میں درپیش تمام مشکلات کا حل گھر کی چار دیواری میں ہی میسر آ سکتا ہے ۔ اس کے لئے بیوی کو مارنا پیٹنا اور اس کو ڈرانے دھمکانے کے لئے چنگھاڑنا ، دھا ڑنا ضروری نہیں۔ آج معاشرے کے بگاڑ کا ذمہ دار خواتین کو قراردیاجاتا ہے تاہم اس حوالے سے سوال یہ کیا جاناچاہئے کہ عورتوں کو اس مقام تک پہنچانے یا لا نے والا کون ہے؟عوت تو زندگی کے ہر موڑ پر اپنے شوہر کی خوشنودی کی محتاج ہے۔تاریخ کے ابتدائی اور موجودہ دور میں فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں عورت کو زندہ دفن کیاجاتا تھا اور آج اسے سر ما یہ دارانہ معیشت کی مشینو ں میں ذبح کیا جاتا ہے۔

شیئر: