ایک زمانے میں ریشم و حریر کے بے شمار لباسوں کی وہ مالکہ تھیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کے پاس کپڑوں کے صرف 2جوڑے تھے
* * * * عبد المالک مجاہد۔ریاض* * * * *
سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے اعلیٰ اخلاق‘ اعلیٰ صفات اور نہایت قریبی رشتہ داری کی وجہ سے عبدالملک بن مروان نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ کی شادی اپنے بھتیجے کے ساتھ کر دی۔ اس وقت ان کی عمر 20 برس تھی۔ سیدہ فاطمہ کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اپنے وقت کی سب سے خوبصورت ،ذہین وفطین اور خوب سیرت خاتون تھیں۔ شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ سیرت نگاروں کے مطابق دمشق کی تاریخ میں یہ دن بڑا یادگار تھا۔ ایک طرف خلیفۂ وقت کی صاحبزادی اور دوسری طرف بنو امیہ کا خوبصورت شہزادہ تھاجس کا والد ایک مدت تک مصر کا گورنر رہا تھا۔ راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’سنہری کرنیں‘‘ میں اس عظیم خاتون پر بڑی تحقیق اور محنت سے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان:’’فاطمہ بنت عبدالملک کا سنہری کردار‘‘ ہے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کی زندگی سے اس عظیم خاتون کے کردار کو اگر الگ کر دیا جائے تو آپؒ کی سیرت ادھوری رہ جاتی ہے، تو آئیے اس عظیم خاتون کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔ اسلا می تاریخ نے جن خواتین کا تذکرہ بڑے اہتمام اور تفصیل سے کیا ہے ان میں فاطمہ بنت عبدالملک کا نام بڑا نمایاں ہے۔ اموی خاندان کی نور چشم یہ خاتون اپنے دور میں سب سے زیادہ مشہور تھیں ۔دمشق میں 67ہجری کوپیداہوئیں۔ان کے والد عبدالملک،دادا مروان،خاوند عمر بن عبدالعزیز اور4بھائی ولید،سلیمان،یزید اورہشام سب کے سب خلافت کے منصب پر فائز ہوتے ہیں ۔یہ اعزاز شاید ہی کسی دوسری عورت کو ملا ہو کہ اس کے7 محارم بہت وسیع وعریض اسلامی مملکت کے خلفاء تھے ،اس لئے کسی شاعر نے کہا تھا کہ : بِنْتُ الْخَلِیفَۃِ ، وَالْخَلِیفَۃُ جَدُّھَا أُخْتُ الخَلَائِفِ وَالْخَلِیفَۃُ زَوْجُھَا ’’وہ ایک خلیفہ کی بیٹی تھی، دوسرا خلیفہ اس کا دادا تھا۔وہ(4) خلفاء کی بہن تھی اورایک خلیفہ اس کا خاوند تھا‘‘۔ فاطمہ اپنے دور کی نہایت دانا،معاملہ فہم ،عالمہ فاضلہ،نیک سیرت اور نہایت خوبصورت خاتون تھیں ۔وہ حلیم الطبع اور منکسرالمزاج بھی تھیں ۔نہایت فیاض اور سخی تھیں ۔
بڑے نازونعم میں پلی بڑھیں ،ہوش سنبھالا تو گھر میں بادشاہی تھی۔نوکرچاکر اور دنیا بھر کی نعمتیں موجود تھیں مگر اس کے باوجود نخوت اور غرور نام کو نہ تھا۔لوگوں کے ساتھ مکمل تعاون کرتیں، علم کی دلدادہ تھیں۔علم حاصل کیاتو اسے دیگر لوگوں کو بھی سکھایا۔اپنے والدین کی بڑی لاڈلی تھیں ۔شادی کی عمر کو پہنچیں تو ان کی شادی ان کے چچازاد سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ ہوئی۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شادی اس دور کی سب سے اہم اور یادگار شادی تھی،جہیز میں بے حد و حساب سامان ملا۔سونے چاندی کے زیورات کا کوئی حساب نہ تھا ان زیورات میںایک نہایت بیش قیمت ہیرابھی تھا۔ فاطمہ کے سسرعبدالعزیز20 سال تک مصر کے گورنر رہے۔شادی کے کچھ عرصہ بعد یہ اپنے خاوند کے ہمراہ مدینہ منورہ منتقل ہوجاتی ہیں۔
اس دور میں سیدنا عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر تھے۔یہ جوڑا اس دور کا سب سے خوش قسمت اور سعادت مند جوڑا تھا ۔اتنا بتا دیناہی کافی ہے کہ ان کا ایک محل مدینہ میں ،ایک قاہرہ میں اور ایک دمشق میں تھا۔نوکروں چاکروں کی لائن لگی رہتی۔شادی ہوئی تو خلافت اس گھرانے میں تھی۔سیدہ فاطمہ کے والد عبدالملک نے وفات پائی تو خلافت ان کے بھائی ولید کے پاس آئی اور ان کی وفات کے بعد خلافت ان کے دوسرے بھائی سلیمان کے پاس تھی۔یہ سارا عرصہ سیدہ نے نہایت عیش وعشرت میں گزارا۔خاوند عمر بن عبدالعزیز نہایت محبت کرنے والے تھے۔مکارم اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز تھے۔محدث اور متقی وپرہیز گار تھے۔طبعی رحجانات میں دونوں ہم آہنگ تھے اور یہ ذہنی ہم آہنگی اور فکری اتحاد ہمیشہ قائم رہا۔
سیدہ فاطمہ نے ایک بلند کرداربیوی کی طرح ہر موقع پر عظیم شوہر کی ہم نوائی کی۔ مؤرخین اور سیرت نگاروں نے شادی کے موقع پر سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے الفاظ نوٹ کئے ہیں ۔انہوں نے اپنے سسر کا نہایت بلیغ وفصیح الفاظ میں شکریہ اداکرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے فاطمہ کو میرے عقد میں دے کر میری قلبی تمنائوںکی حوصلہ افزائی کی ہے اور میری روحانی مسرتوں کو پروان چڑھنے کا موقع دیا ہے۔
قارئین کرام !پھر اس گھرانے میں ایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔یہ 98ہجری کا زمانہ ہے ۔شام کے شہرحلب کے قریب ایک چھوٹا سا گائوں ’’دابق ‘‘ ہے۔وہاں پرخلیفۃ المسلمین سلیمان بن عبدالملک بیمار ہیں ۔ان کی اولاد ابھی نابالغ تھی، بیماری کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، موت سامنے نظر آنے لگی۔سوچ رہے ہیں کہ اپنا نائب کسے مقرر کریں ۔یہ لمبا واقعہ ہے جو راقم الحروف نے اپنے دیگر مضامین میں ذکر کیا ہے۔
مختصر یہ کہ امت کے ایک بڑے خیرخواہ عالمِ دین رجاء بن حیوہ جو حکومت کے چیف سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے خلیفہ کو مشورہ دیا کہ امت پر بھلائی کریں اور اپنے بعد عمر بن عبدالعزیز کی بطور خلیفہ وصیت کرجائیں۔خلیفہ نے کہا کہ رجاء تمہاری بات درست ہے مگر مجھے ڈر ہے کہ میرے بھائی اسے تسلیم نہیں کریں گے۔رجاء کہنے لگے کہ آپ عمر بن عبدالعزیز کے بعد یزید بن عبدالملک کی بطور خلیفہ وصیت کرجائیں ۔
سلیمان بن عبدالملک نے اپنے بعد سیدنا عمر بن عبدالعزیز کی وصیت کی اور یوں وہ خلیفۃ المسلمین بن گئے۔ اب سیدہ فاطمہ خاتون اول تھیں مگر جیسے ہی عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنتے ہیں ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہوتا ہے ۔انہوں نے بطور خلیفہ تمام پروٹوکول مسترد کردیے اور ایک عام شخص کی زندگی اختیار کرلی۔عمر بن عبدالعزیز کی اور بھی بیویاں اور لونڈیا ں تھیں ،انہوں نے تمام کو اکٹھا کیا اور کہا : میں ایسی آزمائش سے دوچار ہوا ہوں جس نے مجھے تم سے ایک الگ حیثیت دے دی ہے لہٰذا تم میں سے جس کا جی چاہے اپنے گھر چلی جائے۔ سیدہ فاطمہ وہ خاتون تھیں جنہوں نے وفاداری کی اعلیٰ مثال قائم کی۔انہوں نے محلات کو چھوڑ کر ایک چھوٹے سے مکان میں رہنا پسند کیااور اپنے خاوند کو ترجیح دی۔یہ مکان مسجداموی کے قریب تھا اور کچی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔اس گھر کی لپائی سیدہ فاطمہ خود کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ایران کے علاقے سے کوئی عورت ضروری کام سے امیر المؤمنین سے ملنے کے لئے دمشق آتی ہے۔اس نے امیر المؤمنین کے محل کے بارے میں پوچھا تو لوگوںنے اسے اس چھوٹے سے گھر کے بارے میں بتایا ۔جب وہ دروازے پر آئی تو کوئی دربان نہ تھا ،ایک چھوٹا سا لڑکا دروازے پر تھا۔جب وہ گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا ایک شخص مٹی کی اینٹوں سے دیوار بنارہا ہے اورایک عورت اسے اینٹیں پکڑارہی ہے۔ وہ عورت کہنے لگی : بی بی !تم اس مزدور سے پردہ کیوں نہیں کرتیں۔ کہنے لگیں: کہ یہ امیرالمؤمنین ہیں اور میں ان کی اہلیہ فاطمہ ہوں۔ قارئین کرام!خلیفہ کی بیٹی ،بہن اور اہلیہ میں اس قدر انقلاب آتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے خاوند کے رنگ میں رنگ جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے خاوند کی ہر ادا کو اپنا یا جو انہوں نے چاہا اُسے بجالائیں ،فقیری اختیار کی۔وہ لمبی لمبی نمازیں ادا کرتیں ،اللہ کے خوف سے روتیں اور اپنے خاوند کے خیر کے کاموں میں خوب ساتھ دیتیں۔
اوپر ذکر کیاگیا ہے کہ سیدہ فاطمہ کے پاس خوب سونا چاندی ،جواہرات اور جاگیر تھی۔جب سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے بنو امیہ کی تمام جائدادیں اور جاگیر یں ضبط کیںتو اپنی اہلیہ فاطمہ کی وہ جاگیر بھی بحق سرکار ضبط کرلی جو انہیں باپ اور بھائیوں نے عطا کی تھی کیونکہ یہ مسلمانوں ہی کا مال تھا ۔اس پر بھی سیدہ فاطمہ نے کسی قسم کے ملال کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے شوہر کی ہمنوائی کی۔جہاں تک سونے چاندی ، ہیرے،جواہرات اور قیمتی سامان کا تعلق ہے اس کے بارے میں شام کے مشہور محقق عالم دین شیخ علی الطنطاوی لکھتے ہیں : ’’سیدہ فاطمہ کے پاس بڑی مقدار میں سونا اور جواہرات تھے، اس دور کی تمام خواتین میں کسی کے بھی پاس اتنے زیوارت نہ تھے۔
ایک دن سیدنا عمر کہنے لگے: فاطمہ یہ زیورات تمہارے لئے جائز نہیں۔یہ ناجائز طور پر بیت المال سے لئے گئے ہیں۔تمہارے لئے دو ہی راستے ہیں کہ یاتو مجھے اختیار کرلو اور ان زیورات کو بیت المال میں جمع کروادو، بصورت دیگر مجھ سے جدائی کاراستہ اختیار کرلو…سیدہ فاطمہ اسی مدرسہ سے فیض یاب تھیں جہاں سے عمر بن عبدالعزیز نے تعلیم پائی تھی۔فوراً جواب دیا: میں آپ کی رفاقت اختیار کرتی ہوں اورتمام زیورات بیت المال میں جمع کروادئیے۔‘‘ اور پھر ایک دن وہ بھی آیا جب ان کے خاوند کا انتقال ہوگیااور خلافت ان کے بھائی یزید کے پاس آگئی۔ اس نے اپنی بہن فاطمہ کے تمام زیورات واپس بھجوادئیے۔فاطمہ نے زیورات دیکھے تو اپنا خاوند یاد آگیا۔ فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے…اپنے خاوند کی وفائیں، محبتیں اور پیار یاد کرتے ہوئے انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا: ’’میں جس شخص کی زندگی میں اس کی اطاعت و فرماںبرداری کرتی رہی یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اس کی وفات کے بعد اس کی نافرمان بن جاؤں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے تمام زیورات واپس بیت المال میں بھجوادئیے ۔خلیفہ نے انہیں اپنی عورتوں میں تقسیم کردیا۔ سیدہ فاطمہ بنت عبدالملک نے وفا کی اعلیٰ مثال پیش کی۔خلافت کے بعد ان کے خاوند کی سالانہ آمدنی صرف 150 دینار تھی۔
اب گھر میں بہت عام سا کھانا پکتا تھا ،عموما ًدال ہی پکتی تھی۔ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ نے گھر کے اکلوتے چھوٹے سے نوکر کو کھانادیا تو وہ ناراض ہوگیا۔غصے میں کہنے لگا: یہ کیا ہوا؟ہر روز دال!ہرروز دال!میں دال کھاکھا کر تنگ آگیا ہوں۔سیدہ نے جواب دیاکہ سنو!یہی تمہارے آقا امیرالمؤمنین کی بھی خوراک ہے۔ ایک دن سیدہ فاطمہ امیر المؤمنین کے پاس بیٹھی تھیں۔سامنے ان کی بیٹیاں منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تیزی سے گزریں تو سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے پوچھا: فاطمہ! ان کو کیا ہوا ہے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے میرے پاس سے بھاگ گئی ہیں سیدہ نے جواب دیا: ان کے پاس کھانے کے لئے روٹی اور پیاز ہی تھا ،انہوں نے اپنے منہ پر ہاتھ اس لئے رکھے ہوئے ہیں کہ پیاز کی بو آپ تک نہ پہنچ سکے۔ سیدہ فاطمہ نے بلاشبہ اپنے دو ر میں مسلمان خواتین کے لئے اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ ایک دن ان کے پاس ان کا چھوٹا بیٹا روتا ہوا آیا ،پوچھا کیا ہوا؟بتایا گیا کہ مال فے میں سے کچھ سیب امیر المؤمنین کے پاس آئے۔انہوں نے مستحقین میں تقسیم کرنا شروع کر د ئیے، ان کا یہ چھوٹا بیٹا بھی ان کے پاس پہنچ گیا۔ گلابی رنگ کاایک سیب بچے کو اچھا لگااور اس نے اٹھا کر منہ سے لگا لیا۔بیٹے کے ہاتھ میں سیب دیکھ کر امیر المؤمنین نے بہت نرمی سے بچے کے ہاتھ سے سیب لے لیا چنانچہ وہ روتا ہوا اپنی والدہ سیدہ فاطمہ کے پاس آیا۔
ماں کا دل تڑپ اٹھا ۔اپنی جیب سے کچھ سکے نکالے ان کے سیب منگوائے اور بچے کو کھلانے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد امیر المؤمنین بھی تشریف لائے، گھر میںاسی طرح کے گلابی سیب دیکھے تو نہایت فکرمند ہوئے کہ یہ مال فے کے سیبوں جیسے ہیںمگر جب معلوم ہوا کہ اہلیہ نے ذاتی پیسوں سے منگوائے ہیں تو بہت خوش ہوئے ،فرمانے لگے: اللہ کی قسم! میرا پنا بھی سیب کھانے کو جی چاہتا تھا ،پھرسیب کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔اہلیہ سے بچے کے بارے میں پوچھا،انہوں نے بتایا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا : فاطمہ ! اللہ کی قسم! میں نے بچے کے ہاتھ سے نہیں بلکہ اپنے دل سے سیب چھینا تھا… لیکن میں نے اس بات کو اچھا نہیں جانا کہ میں مسلمانوں کے مال فے کی تقسیم سے پہلے محض ایک سیب کے بدلے اپنی امانت داری کو ضائع کردوں۔
سیدہ فاطمہ جو ایک زمانے میں ریشم و حریر کے بے شمار لباسوں کی مالکہ تھیں اور اپنی ہم عصر خواتین میں خوبصورت ترین لباس پہننے میں معروف تھیں، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کے پاس کپڑوں کے صرف2 جوڑے تھے جنہیں وہ بار ی باری پہنتی تھیں ۔کھانے کے لئے گھر میں روٹی ،پیاز اور دال ہی ہوتی تھی۔کتنے ہی دن ایسے ہوتے جب وہ بھوکی ہی سوجاتیں انہوں نے اس نئی زندگی میں بھی صبر وشکر کیا۔اپنے رب اور اپنے خاوند کی رضا چاہی۔ اس خاتون کو دنیا سے رخصت ہوئے سینکڑوں برس بیت گئے مگر وہ رہتی دنیا تک ایک مثال ہیں ۔وہ روشنی کی ایسی کرن ہیں جن کے وجود سے اسلامی تاریخ کا چہرہ منور ہے۔
اس واقعہ کو پڑھنے والے قارئین کے لئے میرا مشورہ ہے کہ اس عظیم خاتون کے مفصل واقعات تاریخ کی کتابوں میں ضرور پڑھیں۔ان سے رہنمائی حاصل کریں۔میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہماری بہنیں اس عظیم خاتون کی زندگی کو مشعل راہ بنائیں۔ بلاشبہ انہوں نے عزیمت کی راہ اپنائی مگر تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے ثبت کروا لیا۔انہوں نے تنگی ترشی سے دنیاوی زندگی کا مختصر عرصہ کامیابی سے گزار لیا ۔ اب قیامت تک کے انسان ان کے لئے دعائے رحمت ومغفرت کرتے رہیں گے۔