Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

والدین کو اولڈ ہاوسز بھیجنے والے نادان

 
 
 
 وہ بیٹے کو گلے لگائے اتنی بڑی خواہش پوری ہو جانے پر مالک حقیقی کے شکر گزار تھے
 
اُم مزمل۔جدہ
وہ سلائیڈنگ بینک سے رقم نکال رہی تھی۔ ڈھائی سالہ پوتا اپنے دادا جان کے سینے سے چمٹا دونوں آنکھوں میں آنے والے آنسووں کو بار بار ان کے کرتے میں گال رگڑ کر جذب کرتا ، دونوں ننھے ہاتھوں کو ان کی گردن اور کندھے پر رکھے اپنے بابا جان کی شکایت کئی بار کرنے کے بعد فرمائش کررہاتھا۔ آج بابا نے مجھے پہلے دن اسکول میں اکیلا چھوڑ دیا اب کل سے آپ میرے ساتھ میری کلاس میں رہیں گے۔ میں آپ کے ساتھ جاوں گا اور آپ کے ساتھ ہی واپس آوں گا۔ دادا جان پوتے کی پیشانی پر آئے بالوں کو ہٹاتے ، پیار کرتے اور اخبار میں مختلف تصویریں دکھاتے ہوئے اس کے بہل جانے کی ترکیب کرتے رہے۔ انہوں نے کہا دیکھو تو یہ فلاں بچے کی تصویر کتنی اچھی آئی ہے۔ کھیل کے میدان کی ہے۔ پڑھائی کے بعد کھیل کود میں بھی خوب حصہ لینا چاہئے۔ میرا تو اخبار پڑھنے کے بعد تمہارے ساتھ پلاسٹک سے بنے بیٹ بال کھیلنے کا ارادہ ہے۔ تم پہلے بیٹنگ کرو گے یا بولنگ۔ ابھی چھوٹے پوتے نے اپنا فیصلہ سنایا بھی نہیں تھا کہ لڈو کھیلتے دونوں پوتے جو بالترتیب چوتھی اور پانچویں جماعت کے طالب علم تھے ایک دوسرے کی شکایت دادا جان سے کر رہے تھے۔ ایک نے کہا دادا جان آپ بتائےں کہ ڈبل ڈیکر سے سنگل گوٹی گزر کر جا سکتی ہے۔ انہوں نے جواب دیا نہیں جب تک اس گوٹی پر اسٹاپ نہیں کرے گی آگے نہیں جا سکتی۔ سنگل کو کھیلنے کیلئے بھی تو دو گوٹیاں ڈبل ڈیکر بنائی جاتی ہیں۔ دوسرے نے جلدی سے کہا لیکن بھائی نے تین چھکے پر کہاکہ ایک آدھی بورڈ پر ہے اور آدھی باہر، اس لئے یہ چھکا نہیں گنا جائے گا۔ اس طرح تین چھکے جو زیرو ہو جاتے ہیں، وہ دو چھکے پھر پانچ کا ہندسہ خود لے کر دونوں گھر پر موجود گوٹیاں دو چھکے کے حساب سے باہر لے آئے۔ بتائیں یہ تو حیلہ بہانہ ہے ناں؟ پہلے نے فوراً ہی اپنی صفائی دینے کی کوشش شروع کر دی ۔ دادا جان ایک چھکا تو آدھے سے زیادہ بورڈ سے باہر ہی تھا۔ پھر اس وقت آپ کو پوچھنا چاہئے تھا اب تو گوٹیاں آگے بڑھ گئی ہیں۔ اب یہ اپنے مسئلے کو حل کرنے میں مشغول ہو گئے۔ 
لِونگ روم میں بیٹھی ساس اور بہو صاحبہ خوشی کے ساتھ اپنی کارگزاری دہرا رہی تھیں۔ بہوصاحبہ نے کہا ،کتنا اچھا ہوا صبح ہی صبح ہم لوگوں نے فیبرک پینٹ مکمل کر لیا۔ اب یہ نصف درجن چادریں جن کا پینٹ سکھانے کیلئے ہم نے انہیںڈرائنگ روم میں پھیلا دیا ہے اور کمرہ لاک کر دیا ہے تا کہ بچے اندر نہ چلے جائیں اس وقت تک جب تک یہ سب چادریں سوکھ کر تیار نہ ہو جائیں۔
ساس بھی خوش تھیں کہ انہیں ہمیشہ اسی بات کی خواہش رہا کرتی تھی کہ وہ ہر چھوٹے بڑے علاقے میں جب بھی جائیں اپنے ہمراہ کوئی ایسی کارآمد چیز ضرور لے کر جائیں جو تحفتاً دی جاسکے اور کسی کی ضرورت کو بھی پورا کیا جا سکے۔ امیر گھرانے بھی ایسی بہترین پینٹنگ کی بیڈ شیٹ تحفہ میںپا کر خوشی کا اظہار کرتے تھے جبکہ جن انجانے لوگوں کے علاقے میں وہ لوگ خیرسگالی بنیاد پر جاتی تھیں وہاں بھی جب وہ بچوں کیلئے کچھ کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے اور خود پینٹ کی گئی چادیں تحفتاً پیش کرتی تھیں تو ان لوگوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے تھے۔ وہ لیکر آیا تو والدہ محترمہ کو لسٹ بناتے دیکھا اور بیگم صاحبہ جلدی جلدی روٹی پکانے میں مشغول تھیں۔ ایک اچھا ڈرامہ ٹی وی پر چل رہا تھا ۔وہ بتا رہا تھا کہ میں صاحبزادے کو اسکول ڈراپ کر کے زمین کی دستاویزات مکمل کرانے کیلئے گیا تھا۔ اب کام مکمل ہو گیا ہے جلد ہی والد صاحب کے بنائے پروگرام کے تحت خاندان ،محلے اور احباب کے رشتے دار اسکو ل،کالج و یونیورسٹی کے احباب او رکولیگز ہر ایک کو پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر پلاٹ پر مکان تعمیرکر کے دیا جائے گا وہ دونوں خوشی کے ساتھ پوری تفصیل غور سے سن رہی تھیں۔ ہلچل تو جب پیدا ہو ئی جب دونوں بڑے بچوں نے پھر پھڑاتے بڑے نوٹوں کو ہوا کے زور پر پورے لان میں بکھیرتے دیکھا ۔ انہوں نے تو یکدم زور دار آواز میں شور مچا دیا۔ دادا جان دیکھیں آپ کی راکنگ چیئر کی دونوں ہتھےوں میں لکڑی کی سلائیڈنگ بینک سے آپ کی پوتی صاحبہ روپے نکال رہی ہیں جو ان سے سنبھل بھی نہیں پارہے او رہوا سے ادھر ادھر بکھررہے ہیں۔ ان دونوں نے دوڑ دوڑ کر نوٹوں کو جمع کیا اور دادا جان کے ہاتھوں میں دے دیا۔ دادی جان نے پوتی کو گود میں اٹھا لیا پوچھا بتاو کیا بات تھی کہ تم نے دادا جان کے بینک سے رقم بغیر بتائے لینا چاہی۔ وہ اطمینان سے دادی جان سے لپٹی گود میں بیٹھی اپنے والد صاحب کی طرف اشارہ کرکے شکایتاً کہنے لگی آپ کے صاحب زادے نے اپنے دونوں صاحب زادوں کی ایک فش ایکویریم کی فرمائش پر پورا تالاب گھرپر بنوا دیا جس میں روز نئی نئی مچھلیاں لا کر ڈالتے ہیں۔ میرے پلے اسٹیشن کی فرمائش کیلئے آج کا دن مقررتھا ۔ابھی تک وہ پوری نہیں ہوئی تو میں نے سوچا اس سلائیڈنگ بینک میں سے پیسے نکال لوں پھر دادا جان سے کہوں گی کہ آپ اپنے صاحب زادے سے اتنی ہی رقم لے لیں جتنی میں نے آپ کے بینک سے نکالی ہے کیونکہ میری فرمائش بھی پوری ہونی چاہئے۔ باپ بیٹا دونو ں خوب ہنسے کہ ہم نے یاد نہیں رکھا اس کے لئے معذرت کہ وعدہ نبھانا تو وقت پر ہی ضروری ہوتا ہے لیکن یہ خوب ہے کہ والدین کی شکایت اپنے دادا جان اور دادی جان سے کی جائے۔ بھئی بات یہ ہے کہ پلے اسٹیشن تو یونہی گیمز والی، وقت ضائع کرنے کی چیز ہے۔ ہم تمہیںآج ایسی جگہ کی سیر کرانے لے جائیں گے جہاں بہت سارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو بنانے کیلئے زمین خریدنے آئیں گے۔ وہاں ہم سب لوگ ہی چلیں گے۔ وہاں بیک یارڈ پر لگائے جانے والے کھجور کے درخت کی نہ صرف تم لوگ تصاویر بنا سکو گے بلکہ اپنے ہاتھوں سے اس شجرکاری میں حصہ بھی لے سکو گے۔
والد صاحب یہ سنتے ہی اٹھے اور بیٹے کو گلے لگاتے ہوئے مبارکباد دی کہ کیا آج ہی یہ کام ہو سکے گا۔ وہ بتا رہا تھا ابا جان !وہاں کی ڈھائی ہزار ایکڑ کی اراضی آج میرے نام ہوگئی ہے۔ میں نے آپ کے کہنے پر کمرشل ایریا میں کئی پلاٹس کا قبضہ پچھلے ماہ دے دیا تھا ۔ان لوگوں نے اچھی قیمت ادا کی تھی اب اس میں بینک میں موجود اتنے سالوں کی آپ کی کمائی او رکچھ میرے پس انداز کئے رقم سے اس اراضی کا سودا آج مکمل ہو گیا ہے۔ دستاویز بن گئی ہیں گاوں سے فون آیا تھا کہ اگر وقت ہو تو کئی درجن کھجوروں کے درخت آج ہی لگائے جا سکتے ہیں ۔میں نے عصر کا وقت انہیں دے دیا ہے۔ وہ خوشی کے عالم میں بیٹے کو گلے لگاتے اپنی زندگی کی اتنی بڑی خواہش پوری ہو جانے پر مالک حقیقی کے شکر گزار تھے او رصاحب زادے سے بے انتہا خوش بھی۔ انہوں نے کہا کہ کتنے نادان ہیں ہمارے آج کے نوجوان جو اپنے والدین کو اولڈ ہاوسز میں بھیج دیتے ہیں۔ ان کیلئے ایسی اسکیم کی ضرورت تھی جو مالک حقیقی نے ہمارے ذہن میں ڈال دی کہ ہر گھر کے سینیئر سٹیزن کے نام یہ ایک سو گز کا گھر بنا کرانہیں اس کا مالک بنادیا جائے گا۔ وہ اپنی پنشن کی آدھی رقم ہر ماہ مکان کی قیمت کی ادائیگی میں دے دیا کریں۔ انہوں نے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ بزرگ افراد کے نام یہ گھر فروخت کردیا جائے۔ ان کے نام دستاویزات مکمل کر کے ان کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ وہ اپنی پنشن میں سے آدھی رقم کی ادائیگی سے اپنی زندگی میںگھر کی قیمت ادا کرتے رہیں گے۔ ان کی وفات کے بعد یہ قرض معاف کر دیا جائے گا۔ 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: