Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی بحالی کا احیاء

وزیراعظم کے پاس وقت کہاں ہے کہ وہ ان علاقوں کا دورہ کریں،شہریوں کا حوصلہ بڑھائیں اورلوگوں کے ساتھ کھڑے نظر آئیں
* * * * * ارشادمحمود * * * * *
789کلومیڑطویل کنٹرول لائن پر آباد شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ خوف کے سائے میں زندگی کے ماہ وسال بسر کرتے ہیں۔ موت ہر دم ان کا تعاقب کرتی ہے ۔افسوس! اسلام آباد میں ان کی کتھا سننے والا کوئی نہیں۔اس علاقہ میں آبادی بھی بڑی بے ہنگم ہے۔بعض مقامات پرسویلین آبادی اورہندوستانی فوج کے مورچوں کے درمیان چندسو گزکا فاصلہ ہے۔خاردار تاروں اور فوجی بینکروں کے بیچ میں رہائشی مکانات ہیں۔گزشتہ دنوں ہندوستانی فائرنگ سے متاثرہ علاقوں میں جانے کا موقع ملا تو مقامی فوجی کمانڈروں نے بتایا کہ یہ آبادی دفاع وطن کے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی ہے۔آزمائش کی ہر گھڑی میں سلامتی کے متعلقہ اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجاتی ہے۔
کئی ایسے مقامات بھی دیکھنے کو ملے جہاں مورچوں سے بھی آگے سویلین آباد ی ہے۔ چکوٹھی جہاں سے بس سروس سے لوگ سری نگرآتے جاتے ہیں، ایک صاحب سے استفسار کیا کہ وہ کیوں محفوظ مقامات کی طرف منتقل نہیںہوتے ؟ کہنے لگے: صدیوں سے ہم اس علاقے میں آباد ہیں، ہمارے اجداد یہاں تہہ خاک آرام فرمارہے ہیں ،ہم یہاں سے دور جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ نریندر مودی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا ہوئے کہ ہند کی فورسز کو کنٹرول لائن کے گردنواح میں رہنے والوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا کھلا لائسنس مل گیا۔مقامی فوجی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ کانگریس کے دور میں پاکستانی پوسٹوں پر فائر کرنا ہوتا تو دہلی میں قائم ہیڈکواٹر سے اجازت درکار ہوتی لیکن اب مقامی کمانڈر اپنی مرضی سے جب ، جہاں اور جس وقت چاہتے ہیں، پاکستانی فوج کے مورچوں اور آباد ی پر گولہ باری کرتے ہیں۔انہیں روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں۔
عالم یہ ہے کہ اب فائرنگ ہلکے ہتھیاروں سے ہی نہیں کی جاتی بلکہ ہیوی مارٹرز، گائیڈڈ میزائل اور انفینٹر ی ٹینک بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ گولہ باری کی آوازیں آزادکشمیر کے ایک بڑے حصے میں سنائی دیتی ہیں۔آئے روز اخبارات میں خبر چھپتی ہے کہ ہند کے ڈپٹی ہائی کمیشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں پر احتجاج کیا گیا لیکن وہ اس احتجاج کو اہمیت نہیں دیتے۔ پاکستانی میڈیا اور سیاستدان پانامہ کیس کے چکر میں اس بری طرح الجھے ہوئے ہیں کہ انہیں احساس ہی نہیں کہ آزادکشمیر کی سرحد پر عملاً جنگ کی سی کیفیت ہے۔ 845کے لگ بھگ شہریوں کو شہید کیاجاچکا ہے۔3 ہزار زخمی مختلف ہسپتالوں میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔4لاکھ25ہزارکے قریب شہری کنٹرول لائن کے گردونواح میں آباد ہیں جن کے 3300 کے قریب گھر تباہ کئے جاچکے ہیں اوروہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ عباس پور بازارکا بڑا حصہ مکمل طور پرتباہ ہوچکاہے۔
عباس پور کے ایک سیاسی لیڈر سردار امجد یوسف نے ایک ملاقات میں شکوہ کیا کہ کنٹرول لائن پرمرنے والوں کو3،3 لاکھ روپے دیکر ٹرخادیا جاتاہے۔احمد پورشرقیہ میں مرنے والوں کے لواحقین کو 20،20 لاکھ روپے ادا کئے گئے ہیں حالانکہ وہ پٹرول چوری کرتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔ دفاعِ وطن کے نام پر قربان ہونے والوں سے اس قدر بے اعتنائی برتنے والوں کو احساس ہی نہیں کہ وہ فرسٹ لائن آف ڈیفنس میں بد دلی پھیلار ہے ہیں۔ایسے ہی خیالات آزادکشمیر کی حکومت کے وزراء کے بھی ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کے پاس وقت کہاں ہے کہ وہ ان علاقوں کا دورہ کریں۔شہریوں کا حوصلہ بڑھائیں اور مشکل کی اس گھڑی میں لوگوں کے ساتھ کھڑے نظر آئیں۔ وہ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کی تفتیش میں اس بری طرح پھنسے کہ اہم قومی معاملات سے غافل ہوگئے۔ اکثر کہاجاتاہے کہ سویلین بالادستی کو تسلیم نہیں کیاجاتا۔میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ سویلین اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے تو خودبخود بالادستی قائم ہوجائیگی۔ گزشتہ 7 ماہ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 6بار کنٹرول لائن کا دورہ کیا۔ کیا وزیراعظم کو اسٹیبلشمنٹ نے زخمیوں کو پُرسا دینے سی ایم ایچ راولپنڈی یا مظفرآبادجانے سے روکا۔مسئلہ محض نوازشریف کا ہی نہیں، وزیردفاع ہوں یا تحریک انصاف کے عمران خان یا بلاول بھٹو کسی کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ کنٹرول لائن پر جاتے اور اپنے شہداء کے لواحقین کے ساتھ کچھ وقت گزارتے۔ 2003ء میں پاکستان اورہند کے مابین کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہد ہ ہوا تو اس علاقے میں زندگی نے ایک نئی کروٹ لی۔ سرسبز وشاداب نیلم ویلی اور راولاکوٹ خاص طور پر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق محض گزشتہ سال 15 لاکھ افراد نے نیلم ویلی اور راولاکوٹ کی سیر کی چنانچہ سیکڑوں نئے گیسٹ ہاؤس تعمیر ہوئے۔ نوجوانوں کو روزگار کے زبردست مواقع دستیاب ہوئے۔ خاص طور پر نیلم ویلی میں کنٹرول لائن سیاحوں کیلئے تفریح کا مقام بن گئی جہاں جاکر وہ جموں وکشمیر کے نقشے پر منصوعی طورپر کھڑی کی گئی دیوار برلن کو چشم نم سے دیکھتے۔ مقامی لوگ انہیں اشارے سے بتاتے کہ دریا کے دوسری جانب ان کے بھائی بند آباد ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں ،مل نہیں سکتے ۔
اس علاقے میںہرروز منقسم خاندانوں کے دکھوں اور مصائب کی ایسی ایسی کہانیاں رقم ہوتی ہیں کہ ان پر کئی فلمیں بن سکتی ہیں۔ سرما میں دریائے نیلم میں پانی کم ہوجاتاہے تو دریا کے دونوں جانب لوگ جمع ہوجاتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے چیخ چیخ کر باتیں کرتے ہیں۔ پتھر میں باندھ کر سندیسے دریا کے پار پھینکتے ہیں۔سیاح یہ مناظر دیکھتے ہیں تو دل تھام لیتے ہیں۔نیلم ویلی میں اس برس بھی ملک بھر سے ہزاروں خاندان سیرکیلئے جارہے ہیں کیونکہ یہ علاقہ ابھی تک پوری طرح فائرنگ کی زد میں نہیں آیا ۔ مقامی لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کہیں ٹورازم کا یہ سلسلہ دم ہی نہ توڑ دے۔
خوشحالی وقتی ثابت نہ ہو۔ لوگوں نے اس خطے میں کروڑو ں روپے خرچ کرکے شاندار انفرااسڑکچر کھڑا کیا تاکہ وہ ملک بھر سے آنے والے سیاحوں کو رہائش، خوراک اور تفریح کا ساماں مہیا کرسکیں۔ حکومت پاکستان ہندوستانی فائرنگ سے ہونے والے نقصان سے کم ہی دنیا کو آگاہ کرپائی ہے۔ملکی اور غیر ملکی صحافیوں اورسفارتکار و ں کو ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں حالانکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ خود صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرتی کہ وہ کنٹرول لائن پر جائیں اورا سٹوریاں لکھیں یا ٹی وی چینلز پر نشر کریں۔
قومی میڈیا بھی بے حسی کا شکار ہے۔ہر روز ہر ٹی وی چینلز پر درجنوں پروگرام چلتے ہیں لیکن مجال ہے کہ وہ کنٹرول لائن پر جاری کشیدگی کی کوریج کریں۔ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کشمیریوں کی سویلین آباد ی فائرنگ سے متاثر ہوتی ہے چنانچہ کوئی ایسا میکانزم وضع کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہدہ بحال ہوسکے۔نقل مکانی کرنے والے واپس اپنے گھروں کو جاسکیں۔ہر منگل کو پاکستان اورہند کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بات کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں ایسی کیا انا آڑے آتی ہے کہ وہ کنٹرول لائن پرجاری محاذ آرائی کو بند کرنے کے بارے میں بات نہیں کرتے ۔ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے معاہدے کی ازسرنو بحالی کی کوشش کی جانی چاہیے ۔آزادکشمیر کے شہری زیادہ دیر تک موجودہ حالت میں نہیں رہ سکتے۔

شیئر: