Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ اقامہ بردار‘‘

* * * * * شہزاد اعظم* * * * *
انسانوں کی اکثریت زندگی میں آموزش کیلئے عام طور پر ’’سہ گودی مراحل‘‘ سے گزرتی ہے ۔ ان میں پہلی گود ماں کی ہوتی ہے ، دوسری استاد کی اور تیسری معاشرے کی۔بعض ’’خوش قسمت مظلوم‘‘ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی ’’چہار گودی‘‘ ہوتی ہے۔ ان کی چوتھی گود پردیس کہلاتی ہے۔ہم بھی ان ’’بختوں‘‘ میں شامل ہیں جن کو ’’چہار گودی آموزش‘‘میسر آئی ہے۔ ہماری سب سے پہلی گود ماں کی گود تھی جہاں پر ہم نے بولنا، چالنا، استعمالِ پالنا،کہے کو ٹالنا،پانی میں ہاتھ ڈالنااور ایسے ہی دیگر اوامر پر اپنا ہاتھ صاف کیا، اس کے بعد آموزش کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب ہم ٹاٹ اسکول کی کچی جماعت میں داخل ہوئے اور مس شکیلہ کی زیر نگرانی ہمیں ’’انسان سازی‘‘ کے مختلف مرحلوںسے گزارا گیا۔
اُس ’’زنانہ چھاؤں‘‘ میں ہم نے 10برس گزارے مگر ایسا لگا جیسے یہ 10سال نہیں بلکہ 10ہفتے تھے۔ ہم نے بہت غور کیا کہ آخر یہ 10برس چٹکی بجاتے کیوں گزر گئے؟اس سوال کا جواب 10ویں جماعت میں پہنچ کر ہمیں اس وقت ملا جب ماسٹر فضلو نے ہمیں پورے 10منٹ کیلئے مرغا بنایا۔اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ انسان کیلئے’’مرغیت‘‘ میں گزرنے والی گھڑی بھی سال کے برابر ہوتی ہے اور عیش و نشاط میں گزرنے والا سال محض ایک گھڑی لگتا ہے۔ماسٹر فضلو نے جب ہمیں ’’مرغے‘‘ سے دوبارہ انسان بننے کی ہدایت کی تو ہماری جان میں جان آئی۔ آج ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ٹاٹ اسکول میں ہم 10سال مرغا بنے رہے اور محض 10 منٹ مس شکیلہ نے ہمیں آموزش عطا کی۔ مس شکیلہ کے بعد معاشرے نے ہمیں گود لے لیا۔ اس نے تو ہمیں ’’الف‘‘ سے ’’ے‘‘ تک سبھی کچھ سکھا دیا۔ معاشرے نے ہمیں نفرت سکھائی پیار سکھایا،محبت سکھائی ، اقرارسکھایا، برہمی سکھائی، انکار سکھایا،بے قراری سکھائی ، قرار سکھایا ،تجمیل سکھائی،سنگھار سکھایا،خموشی سکھائی ، اظہار سکھایا،نوکری سکھائی، بیوپار سکھایا۔ معاشرے نے ہمیں یہ بھی سمجھایا کہ امیر بنو گے تواہلکار وں کی اکثریت تمہاری عزت کرے گی ، ہاں میں ہاں ملائیگی، قانون تمہارا کچھ نہیںبگاڑ سکے گا، کوئی کتنا ہی پہلوان کیوں نہ ہو، تمہیں کبھی نہیں پچھاڑ سکے گا۔
تم جس کو چاہو چھٹی کا دودھ یاد دلا دو مگر تمہیں کوئی نہیں لتاڑ سکے گا۔اس کے برخلاف اگرتم غریب ہو گے توتم طوطی بن جاؤ گے اور یہ معاشرہ نقار خانہ ہوگا، جھوٹا سر چڑھ کے بولے گا اور سچاہونے کے باوجود تمہارا مقام تہ خانہ ہوگا۔تم دن رات محنت کرو گے پھر بھی تمہارے لئے معدوم آب و دانہ ہوگا۔ یوں معاشرے نے ہمیں نشیب و فراز سے نبردآزما ہونے کا فن سکھاکر بحرانوں میں دھکیل دیا۔ بس پھر کیا تھا ، ہم کتنے ہی برس ’’سہ گودی آموختہ‘‘ یعنی 3گودوں کا سکھایا ہوا سبق عقل و فہم میں بسائے 2وقت کی روٹی کیلئے شبانہ روز مشقت میں جُتے رہے۔ وقت گزررہا تھا کہ ایک روز اچانک ہمیں ’’چوتھی گود‘‘یعنی ’’پردیس‘‘میں ’’پروان چڑھنے ‘‘کا موقع ،چنانچہ ہم نے پہلے تو بغور ’’آؤ دیکھا ‘‘اورپھر باقاعدہ’’تاؤ دیکھا‘‘۔انجام کار پردیس کیلئے ٹکٹ کٹا لیا۔اس چوتھی گود نے تو ہمیں ایسی آموزش عطا فرمائی کہ ہم ابتدائی 3گودوں کی پڑھائی ، سکھلائی ، سجھائی ، بتائی سب بھول گئے۔
ہماری اس بات کی تائید وہ تمام اہل وطن کریں گے جو ماضی یا حال میں تارکین وطن کی فہرست میں شامل رہ چکے ہیں۔پردیس نامی اس چوتھی گود نے ہمیں ایسا کیا سکھایا کہ جس نے 3گودوں کی آموزش کو بھلا دیا۔ ذیل میں اس کی مختصرترین وضاحت کی جا رہی ہے:
٭٭ہمیں مس شکیلہ نے اسکولی زندگانی کے ایام میں یہی بتایا کہ ’’لائن‘‘ کا مطلب شیر ہوتا ہے۔ شیر جنگل کا سردار ہے، تمام جانور اس سے ڈرتے ہیں۔ ’’لائن‘‘ جب دھاڑتا ہے تو تمام چرند پرند اپنے دڑبوں اور بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ ’’لائن ‘‘ جس کو چاہے طمانچہ رسید کر دے، جس کو چاہے اپنا نوالہ بنا لے، جس پر چاہے عنایات کی بارش کر دے۔معاشرے نے بھی ہمیں سکھایا کہ ’’لائن‘‘ہی اصل میں قابل اعتبار ہے، جب بھی کوئی مرد و زن یوں ’’اطلاعاتی استفسار ‘‘کرے کہ’’ دیکھو دیکھو کون آیا‘‘، آپ سب جواب دیں کہ ’’لائن آیا، لائن آیا۔‘‘پھر یوں ہوا کہ ہم چوتھی گود یعنی پردیس پہنچے۔
ہوائی اڈے میں داخل ہوئے، پاسپورٹ ہاتھ میں لئے امیگریشن کاؤنٹر کے قریب تک گئے تو حا ل میں نامانوس انتباہی صدا بلند ہوئی ’’لائن ، لائن‘‘۔ہمیں یوں لگا جیسے پردیس میں سکھایاجانے والا نعرہ اُلٹ دیا گیا ہے چنانچہ ہم نے فوراً نعرے کا ابتدائی حصہ نرم آواز میں زبان سے ادا کیا کہ’’ دیکھو دیکھو کون آیا‘‘۔ اسی مخمصے کے دوران ہم نے ایک اور ’’اصلاحی منظر‘‘ دیکھا کہ ایک مسافر کو ’’لائن، لائن‘‘کہتے ہوئے بازو سے دھکیل کر ہمارے پیچھے لا کر کھڑاکر دیا گیا ۔اب ہمیں علم ہوا کہ انگریزی میں ’’لائن‘‘ کا مطلب قطار ہوتا ہے۔وہ دن سو آج کا دن ہم نے ’’لائن‘‘کو اپنی زندگی کا خاصّہ بنا لیا ہے یہاں تک کہ ہم اپنے کمرے سے باہر جوتے بھی لائن میں رکھتے ہیں۔
٭٭ہم دیس میں تھے توگھر سے باہر نکلتے وقت قومی شناختی کارڈجیب میں رکھ کر لے جانا اپنی ’’تضحیک‘‘ سمجھتے تھے کہ آخر ہمارے پاکستانی ہونے پر کسی کو شک کیسے ہو سکتا ہے؟کہیں پولیس پکڑ لیتی اور پوچھتی کہ شناختی کارڈ دکھائیے تو ہم کہہ دیتے کہ وہ تو گھر پر پڑا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہم اہلکاروں پر برس پڑتے کہ کیا ہم شکل سے تمہیں ’’غیر ملکی چور‘‘ دکھائی دے رہے ہیں جو تم ہم سے شناختی کارڈ مانگ رہے ہو؟پھر یوں ہوا کہ ہم پردیس پہنچ گئے ۔ یہاں ہمیں شناختی دستاویز کے طور پر اقامہ دیا گیا اور کہا گیا کہ اسے ہر لمحہ اپنی جان کے ساتھ سنبھال کر انتہائی احتیاط کے ساتھ رکھنا ہے۔
اگر کسی اہلکار نے اقامہ طلب کیا اور آپ کے پاس یہ نہ ہوا تویقین جانئے باقی ماندہ ایامِ زندگی اسی پچھتاوے میں گزریں گے کہ کاش میں اقامہ ہر دم جیب میں رکھتا ۔یہ سن کرہم نے اقامے کو جان سے پیارا سمجھنا شروع کر دیا اور اسے ہر دم سینے سے لگاکر رکھنے کی عادت ڈالنے کیلئے ہم نے سوتے وقت بھی اسے جیب میں رکھنا اپنے اوپر لازم کر لیا۔ پردیس میں رہنے والے تمام تارکین وطن کو اقامے کی اہمیت کا اندازہ ہے اسی لئے انکی حالت یہ ہے کہ سوتے جاگتے، کھاتے پیتے، ہنستے ہنساتے، روتے رلاتے، روٹھتے مناتے، کانوں کو جیسے ہی آوازسنائی دیتی ہے ’’ہت اقامہ‘‘ تو سب کچھ بھول بھال کر لاشعوری طور پر پردیسی کا ہاتھ اپنی جیب کی طرف جاتا ہے ۔اب تو ہم وطن جاتے ہیں تو بھی شناختی کارڈ جیب میں رکھتے ہیں حالانکہ وہاں کوئی نہیں کہتا کہ ’’ہت شناختی کارڈ‘‘۔
آج کل ٹی وی پر مباحثوں میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے فلاں وزیر یا اسمبلی کے رکن کے پاس عرب ملک کا اقامہ ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ یہ غلط ہے، انہوں نے کبھی اقامہ ہی نہیں لیا۔ اقامہ کس رکن اسمبلی کے پاس ہے اور کس کے نہیں، اس کاانتہائی آسان طریقہ یہ ہے کہ اسمبلی کا اجلاس بلا کر اچانک آواز لگائی جائے’’ہت اقامہ‘‘،پھر دیکھ لیا جائے کہ کس کس نے چونک کر اپنا ہاتھ جیب کی طرف بڑھایا، بس وہی ہوگا ’’اقامہ برادری‘‘ سے تعلق رکھنے والا’’ اقامہ بردار‘‘۔

شیئر: