Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے بعد جی سی سی، عرب لیگ اور اردن کی بھی نام نہاد ’گریٹر اسرائیل وژن‘ کی مذمت

اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے آٹھ اگست کو غزہ قبضے کے منصوبے کی منظوری دی تھی (فوٹو: گیٹی امیجز)
سعودی عرب کی جانب سے بنجمن نیتن یاہو کے نام نہاد ’گریٹر اسرائیل وژن‘ کے حوالے سے بیانات کی مذمت کے بعد ان کے استرداد کا سلسلہ طویل ہونا شروع ہو گیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ’گریٹر اسرائیل وژن‘ سے’ بہت زیادہ‘ وابستہ ہیں۔
گریٹر اسرائیل کی اصطلاح کو ایک توسیع پسندانہ وژن سمجھا جاتا ہے جس میں مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیاں آتی ہیں۔
بدھ کو سعودی وزارت خارجہ نے اسرائیلی حکام کے اختیار کردہ آباد کاری اور توسیع پسندانہ نظریات اور منصوبوں کو مکمل طور پر مسترد کیا تھا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’یہ فلسطینی عوام کا  تاریخی اور قانونی حق ہے کہ وہ متعلقہ بین الاوامی قوانین کی بنیاد پر اپنی سرزمین پر آزاد اور خود مختار ریاست قائم کریں۔‘
خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے سیکریٹری جنرل جاسم البداوی نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کی مذمت کی ہے۔
ایک بیان میں انہوں نے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور عرب ریاستوں کی خودمختاری اور اتحاد پر حملہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے بیانات علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
اسی طرح عرب لیگ کی جانب سے نیتن یاہو کے بیان کی سخت ترین الفاظ میں مذمت سامنے آئی ہے اور ایسے تبصروں کو عرب ممالک کی خودمختاری کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
عرب لیگ کی جانب کہا گیا ہے کہ ایسی بیان بازی ’توسیع پسندانہ اور جارحانہ‘ عزائم کی عکاسی کرتی ہے جس کی جڑیں ’نو آبادیاتی فریب‘ میں ہیں۔
عرب لیگ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ ایسے انتہاپسند اعلانات کی راہ روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کرے۔
اسی طرح اردن کی وزارت برائے خارجہ امور نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کے بیانات کو خطرناک اور اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے مذمت کی اور مسترد کیا ہے۔
وزارت کے ترجمان سفیان قداح کا کہنا تھا کہ ’ایسے لغو بیانات سے اردن اور عرب ممالک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی فلسطینی عوام اپنے جائز اور ناقابل تنسیخ حقوق سے محروم ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسے بیانات سے اسرائیل کی انتہاپسندی جھلکتی ہے۔ علاقائی استحکام اور بین الاقوامی امن کی خاطر اور اشتعال انگیزی کی راہ روکنے کے لیے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔
خیال رہے بدھ کو اسرائیلی فوج کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس نے غزہ میں مزید حملوں کے طریقہ کار کی منظوری دی ہے۔
یہ منصوبہ اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کے غزہ پر مکمل قبضے کے مطالبے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔

 

شیئر: