Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نسل نو کانئے راستو ں پر سفر کا آغاز

 
یہ جا ن کرخو شی ہو تی ہے کہ نسلِ نو میں حب ا لو طنی کا جذبہ مو جو د ہے
تسنیم امجد ۔ریا ض
وطن سے محبت کا جذ بہ فطر ی ہے جو انسان کے دل میں ایک جوش و ولولہ پیدا کر تا ہے ۔اسی کے تحت انسان اپنے ہم وطنو ں کی خدمت کرنے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو نے پر خو شی محسو س کرتا ہے ۔ پا کستان ہما را پیا را وطن ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ اسے اسلام کا قلعہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔جن قر با نیو ں کے بعد یہ وجود میں آیا ، وہ بے پنا ہ محبت کی متقا ضی ہیں ۔جذ بہ حب ا لوطنی قدرت کی نعمت سے کم نہیں۔ اس کی سلا متی کے لئے ہر لمحہ دعا گو رہنا ہمیںاپنی شان و آن محسوس ہوتا ہے ۔جیسے کسی شاعر نے کہاہے کہ:
 ہم تو مر جا ئیں گے اے ارض وطن پھر بھی تجھے
 زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر  ہو نے تک
یوم آزادی پا کستان کی تیا ریا ں اس قدر دلکش و خوش کن ہوتی ہیںکہ ماہ اگست کے شروع ہو نے سے قبل ہی عید کی سی خوشی محسوس ہونے لگتی ہے۔بچے اپنا جیب خرچ بڑ ھانے کا مطا لبہ کرنے لگتے ہیں۔کل ہی بھا بی بتا رہی تھیں کی ان کے چا رو ں بچے مکمل پلا ننگ کے ساتھ ہم دو نو ں کے رو برو آئے ۔ انہوں نے اپنے پاپا کو اتنی مہلت بھی نہیں دی کہ انہیں فریش اپ ہی ہو نے دیتے ۔وہ دفتر سے آئے ہی تھے کہ ان کے سامنے مطا لبات رکھ دیئے کہ انہیں جھنڈ یا ں اور نہ جا نے کیا کیا خریدنا ہے اس لئے اس مرتبہ کی پا کٹ منی انہیں ڈبل دی جائے۔وہ تو شکر ہے کہ باپ کا مو ڈ خوش گوار تھا چنانچہ ڈانٹ ڈپٹ کی بجا ئے شنوا ئی ہو گئی ۔اگلے دن صبح ہی صبح وہ تیارہو کر میرے کمرے کے باہر کھڑے تھے۔جھنڈیاں ، بیجز ،غبارے اور جو کچھ بھی نظر آیا ،لفا فے بھر کر گا ڑی میں رکھتے گئے۔میں گا ڑی میں بیٹھی ان کی خو شی کا اندازہ لگا رہی تھی ۔بے سا ختہ دل سے دعا نکلی کہ اے اللہ !ان کے جذ بو ں کو ہمیشہ زندہ رکھنا۔
آزا دی بھی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کی قدر محکو م قو مو ں سے پو چھئے۔نسل نو کو ذرا سا بھی ٹٹولیں تو یہ جا ن کر بہت خو شی ہو تی ہے کہ ان میں حب ا لو طنی کا جذبہ مو جو د ہے بس ذراحالات ساز گار ہو ناضروری ہیں۔یہ کام سیا سی لیڈ رو ں کا نہیںکیو نکہ انہیں ہر دم ،ہر پل،اپنے مفا د کی فکر لا حق ہو تی ہے۔اس کے لئے قوم کے ہر فرد کو جا گنا ہو گا ۔خواہ وہ چھو ٹا ہو یا بڑا ،جوان ہو یا بو ڑ ھا،امیر ہو یا غریب،غرض ہرکوئی اپنے چراغ سے دو سرا چراغ جلا ئے توشعور یقینا بیدار ہو گا ۔علم و آگہی کی یہ وہی رو شنی ہو گی جس سے دور جا ہلیت کا اند ھیرا دور ہوا۔ہمیں آج بھی اسی نور کی ضرورت ہے۔مسلمان مجا ہد ہیں۔تا ریخ ہمارے ز ریں کا ر نا مو ں سے معمور ہے۔ہمیں یاد رکھنا چا ہئے کہ ہم تا بناک روایات کے امین ہیں ۔تا ریخ کے صفحات ہماری کا وشوں سے سنہری ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی میں نا موا قف حا لات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر یہ ہمیں مزید بلندی پر پرواز کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔
زندہ قومیں وطن کے پر چم کو سر بلند رکھنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔وطن کی پکار پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیا ررہنا اخلاص کی دلیل ہے:
 ہزار بار زمانے کے سرد طاقوں پر 
 چراغ خون جگر سے جلا ئے ہیں ہم نے
یوم آزادی ، تجدید ِعہد کا دن ہو تا ہے۔نئے ولولوں کو متحد کرنے کا دن ہو تا ہے ۔خود آگہی کی دو لت سمیٹنے کا دن ہوتا ہے۔یوم آزادی پاکستان ، تحریک ِ پاکستان کے متوا لو ں کی قر با نیو ں کو یا د کر نے کا دن ہے اور یہ سلسلہ اک عزم کے ساتھ جا ری و ساری رہنا ضروری ہے۔کیسے بھی حالات ہو ں ان سے نمٹنے کا عزم مصمم ہونا چاہئے ۔و طن کی محبت متقا ضی ہے کہ اس کی سر حدو ں کی حفا ظت کے سا تھ ساتھ اندرونی طور پر بھی یکجہتی اور ا تحاد سے ملکی تر قی کو ملحو ظ خا طر رکھا جا ئے۔مستقبل کی تعمیر میںما ضی اور حال اہم کردار ادا کر تے ہیں۔آج کے حالات پر تبصرہ کرنے سے پہلے اپنی غلطیو ںاور بے اعتدالیوںکا جا ئزہ لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہمیں مستقبل کا روڈ میپ تیار کر نا ہو گا۔ما ضی کے ہو لناک اثرات سے چھٹکا را اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم حقیقی جمہو ریت کی روح سے واقف ہو ں۔اس کے لئے میڈ یا کا کردار اہم ہے۔ تنقید برائے تنقید ،بے جا مباحث اور ٹاک شوز پر وقت ضائع کرنے کی بجائے مثبت انداز سے تر بیتی پروگرام شروع کئے جائیں تاکہ ان عوام میں شعور پیدا ہوجن کی اکثریت پڑھ لکھ نہیں سکتی۔جمہوری کلچر کو سمجھنے کے لئے ابھی سے نسل نو کے ذہن تیارکرنے کی ذمہ داری سنبھالنا تعلیمی اداروں کے لئے ضروری ہے۔طلبہ و طا لبات میں اختلاف رائے کا احترام ، اجتماعی امور طے کرنے کا سلیقہ ،تہذ یبی رویہ اور نظریہ وطن کی سو جھ بو جھ آنا ضروری ہے اس لئے کہ وطن کے مستقبل کے ذمہ دار وہی ہیں۔جمہوریت کے الفاظ ،معنی اور اس پر عمل کا سلیقہ آنا بہت ضروری ہے۔مخلصانہ رو یو ں اور جذ بو ں سے اعلیٰ روا یات کی ایک نئی دنیا تعمیر کر نا کچھ مشکل نہیںکیو نکہ:
ہم ہیں ارض پاک کے ذروں کی حرمت کے امیں
 ہم ہیں حرف لا ا لٰہ کے ترجمان بے خطر
عوامی رویو ں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سیاسی جما عتو ں کو بھی مستقبل کی تعمیر اور حب ا لو طنی کے کلچر کو اپنانے کی پا لیسی پر کاربند ہونے کا عز م نو کر نا ہو گا ۔وی آئی پی کلچر کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔یہی عوام میں ما یو سی اور احتجاج کی جڑ ہے۔گز شتہ دنوں ایک کا نفرنس میں جانے کا اتفاق ہوا ۔مقررین کو مو ضو ع دیا گیا تھا کہ ”دہشت گردی کا خاتمہ کیو نکر کیا جائے؟“ مقر رین کی تقاریر کا لبِ لباب یہ تھاکہ وی آئی پی کلچر ،عوام میں ما یو سیو ں کی جڑ ہے۔اونچا طبقہ اور پھر ایک دم سے نچلا طبقہ۔متوسط طبقہ تو غا ئب ہی ہو چکا ہے۔ایک جانب تو کھا نا اتنا ہے کہ با ہر پھینکا جا رہا ہے اور دوسری جانب پیٹ پر پتھر با ندھے جا رہے ہیں۔اس ما یو سی ، جہالت اور لا علمی کے ما حول میں جا نو ں کی با زی لگا دینا ہی ایک را ستہ رہ جا تا ہے۔اکثر نو جوان اپنی جان کے بدلے گھر والوں کی پریشا نیوںکا سد باب کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک کلپ دیکھا جس میں باپ رو رو کر اپنے بیٹے کے بارے میں بتا رہا تھاکہ وہ ہماری بھوک ختم کرنے کی خا طر کسی ایسے گروہ میں شامل ہو گیاجو اسے موت کے منہ تک لے گیا۔ہماری تو بھوک ویسے ہی مر گئی۔اس کی ماں ، بہنیں زندہ درگور ہو چکی ہیں ۔ان کی روداد سنتے ہو ئے ہمیں ایک نغمے کی باز گشت سنا ئی دینے لگی:
زندہ رہیں تو کیا ہے، جو مر جا ئیں ہم تو کیا 
 دنیا سے خامشی سے گزر جا ئیں ہم تو کیا
 ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
 اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جا ئیں ہم تو کیا
اب بھی وقت ہے کہ ہم وطن کی پہچان کے لئے ڈٹ جا ئیں۔انتخابات میں ووٹ کا استعمال دیا نتداری سے کریں۔قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے متوسط طبقے سے نما ئندوںکا انتخاب کریں جو نتیجتاً ایک خوش کن تبدیلی کی شکل میں سامنے آئے گا۔ہمارے ہاں سے معاشرتی تفریق کا خاتمہ بھی بے انتہا ضروری ہے۔ہمارے آدھے مسا ئل کا حل یہی ہے۔نسل نو کی سیاسی عمل میں شمولیت نئے راستو ں پر سفر کا آغاز ثابت ہوگی ۔ٹیکنا لوجی نے جہاں دنیا کو گلو بل ولیج بنا یا ہے وہاں شعور کو بھی نئی سمتو ں سے رو شناس کرایاہے۔سول بیو کریسی کی تر بیت ضروری ہے۔ان کے قول و فعل میں یکسانیت انقلاب لا سکتی ہے۔نظریہ وطن پر عمل ضروری ہے۔اب بقا کا یہی سیدھا را ستہ ہے۔
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: