Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم بھی دیکھیں گے !

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی منزلیں صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔کل پستی میں گری قومیں آج عالم کی رہنمائی کر رہی ہیں
* * * * محمد مبشر انوار* * * *
نہ جانے کیوں آج فیض صاحب کی مشہور زمانہ نظم اعصاب پر سوار ہے، ممکن ہے کہ عمر رفتہ میں یہ کسک مجھے بھی تنگ کر رہی ہے کہ وہ وقت کب آئیگا جب ملک میں عام آدمی کی سنی جائیگی ،اسے بھی اپنے ’’انسان‘‘ ہونے کا احساس ہو گا،اسے یہ اطمینان ہو گا کہ اس کے جو حقوق ریاست کی جانب ہیں ،وہ اسے یقینی مل کر رہیں گے ،کو ئی بھی اس کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالے گا،نہ اسے روزگار کی فکر ہو گی اور نہ ہی اسے اپنے تحفظ کا ڈر ہو گا ،نہ بچوں کے مستقبل کا غم اسے ہلکان کرے گا اور نہ ہی زندگی اس کیلئے وبال ہو گی۔افسوس تو یہ ہے کہ فیض صاحب تو اس صبح کی آرزو لئے اس فانی دنیا سے چلے گئے اور ہم اس راہ کے مسافر ،نہ جانے کب یہ خواہش دل میں لئے اس دنیا سے چلے جائیں لیکن ایک حقیقت اٹل ہے کہ ملک میں یہ تبدیلی آ کر رہے گی کیونکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی منزلیں صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔
کل پستی میں گری قومیں آج عالم کی رہنمائی کر رہی ہیں اور کل کی نصف النہار پر جگمگاتی قومیں آج قعر مذلت میں گری ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پاکستان اس وقت ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی حامی اور مخالف قوتیں بر سرپیکار ہیں اور اپنے اپنے مقصد کے حصول میں پوری طاقت اور عزم کے ساتھ بروئے کار آ رہی ہیں۔یہاں ایک حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہے کہ اسٹیٹس کو کی مخالف طاقتیں پاکستان میں بدل چکی ہیں،’’اینٹی اسٹیٹس کو ‘‘کا وہ علم جو70 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تھا،آج پاکستان تحریک انصاف کو منتقل ہو چکا ہے اور اس وقت عوامی حقوق کی جنگ پاکستان تحریک انصاف لڑ رہی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی آج خود ’’اسٹیٹس کو‘‘کی نمائندہ بن کر اشرافیہ کے ساتھ کھڑی ہے اس پر طرہ تماشہ یہ کہ پچھلے قریباً 10 سالوں سے سندھ میں تمام اختیارات کے باوجود دیہی سندھ میں کوئی نمایاں تبدیلی برپا نہیں کر پائی،آج بھی دیہی سندھ میں عوام پسماندگی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن نہیں ہوسکی۔اپنے انقلابی منشورکے باوجود،پیپلز پارٹی سے عوام کو جو توقعات وابستہ رہی،وہ ان کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اب حالت یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اکثریت کی خاطر اپنے اعداد وشمار کو دوسرے ممکنات سے جوڑتی نظر آتی ہے کہ اگر ایسا ہو جائے،ویسا ہو جائے تو پیپلز پارٹی کی حکومت بن سکتی ہے۔ ملکی ترقی کی خاطر ہماری تمام حکومتیں غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرتی آئی ہیں ،اس ضمن میں ملک پر قرضوں کا بوجھ تو ضرور بڑھا ہے مگر حقیقی ترقی جس کی خاطر یہ قرض لئے جاتے رہے ہیں،ہنوز نا پید ہے کہ قرضوں کی مد میں حاصل کئے گئے اکثر قرضے غیر پیدواری منصوبہ جات کی نذر ہوئے ،افسر شاہی کے اللے تللوں پر خرچ ہوئے اور اس سے بھی زیادہ حکمرانوں کی ذاتی تجوریوں کی زینت بنے،جن کی گوشمالی اس وقت کی جارہی ہے اور سابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو اس پر شدید ہزیمت کا سامنا ہے مگر آفرین ہے سابق وزیر اعظم پر جو فخر سے فرماتے ہیں کہ انہیں کرپشن کی وجہ سے نہیں نکالا گیا۔
دوسری طرف عوام کی سادہ لوحی ملاحظہ کریں جو اپنے سابق وزیر اعظم پر صرف اس لئے نثار ہوئی جاتی ہے کہ کم از کم ایک شخص ملک پر بھی کچھ خرچ کر رہا ہے،یہ سمجھے بغیر کہ ملک پر خرچ کرنے کی آڑ میں وہ ہماری آنے والی نسل کے ساتھ کیا کررہا ہے؟ہماری آنے والی کئی نسلیں فقط ایک چونی (جانثاران نواز شریف کا استدلال)ملک میں خرچ کر رہا ہے،پھر کیا ہوا اگر 12 آنے کا کوئی حساب نہیں ؟حالانکہ اس چونی میں سے بھی حقیقتاً پوری چونی ملک میں خرچ نہیں ہوتی کہ افسر شاہی کی آسائشوں ،مراعات اور استحقاق بھی اسی ایک چونی سے نکلتے ہیں تو دوسری طرف نچلے طبقے (کلرکوں) کی جیبیں بھی اسی چونی سے بھرتی ہیں۔ اس حقیقت کے بعد جن منصوبوں پر یہ رقم خرچ ہوتی ہے،ان منصوبوں کی پائیداری میں کوئی کیا گمان کر سکتاہے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ بغیر پیندے کے برتن کو بھرا جاسکے ؟یہی وجہ ہے کہ اگلے سال پھر وہی منصوبہ بنانے کی تیاری ہو رہی ہوتی ہے اور سادہ لوح عوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنانے کے ساتھ ساتھ اس کی آنے والی نسلوں کو گروی رکھنے کا پورا اہتمام کر دیا جاتا ہے۔
گزشتہ 3 دہائیوں سے کوئی ایسا پیدواری منصوبہ نظر سے نہیں گزرا جو حقیقتاً نہ صرف ملکی معیشت کی رگوں میں تازہ خون بن کر دوڑتا دکھائی دیتا ہو یا کم ازکم اپنے اخراجات ہی پورے کرتا نظر آئے ، ملکی خزانے کو بھرنے کا وقت تو اس کے کہیں بعد آتا ہے۔ یہاں تو جب بھی سنائی دیتا ہے یہی کہ فلاں منصوبہ میں اتنا خسارہ یا فلاں منصوبے کی تکمیل کے لئے فلاں ادارے سے اتنے قرض کا حصول،کوئی ایک بھی منصوبہ ایسا نظر نہیں آتا جو حکومت نے اپنے وسائل سے پورا کیا ہو۔مشرف دور میں ریکو ڈک کے ساتھ کیا ہوا،زرداری دور میںا سٹیل مل کے ساتھ کیا ہوا،نواز شریف دور میں پی آئی اے کے ساتھ کیا ہوا،کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر ہمیں آج بھی وہ رہنما چاہئے جو کم ازکم ایک چونی خرچ کرنے کا روادار تو ہو،ایسا حکمران چاہئے جو بغیر کسی پلاننگ کے اداروں میں اپنے ورکرز کونوکریاں دے،ہمیں وہ حکمران چاہئے جو نہ صرف خود کھائے بلکہ ہمیں بھی کھانے دے،ملک اور قوم جائے بھاڑ میں۔اس وقت اشرافیہ کا رویہ بعینہ ایسے پھسڈی کا ہے جسے اگر میدان سے باہر نکالا جائے تو وہ نہ خود کھیلتا ہے اور نہ کسی اور کو کھیلنے دیتا ہے،اس وقت چانکیائی طرز سیاست کا سہارا لیتے ہوئے ،ذاتی زندگیوں پر حملے کئے جا رہے ہیں مگر بھول رہے ہیں کہ شیشے کے گھروں میں رہنے والوں کو پتھر اٹھانے سے گریز کرنا چاہئے لیکن محاذ آرائی اور چانکیائی سیاست کرنے والے اپنے انداز نہیں بدل سکتے۔
آج لمحہ موجود میں پاکستان کا قانون متحرک نظر آتا ہے گو کہ جانثاران نوازشریف اور خود ساختہ جمہوریت پسندوں کا نکتہ نظر مختلف ہے (جو ان کا حق ہے )مگر پاکستان کسی حلوائی کی دکان نہیں جہاں موقع پرست اپنے نانا کی فاتحہ کروانے کے لئے ہمیشہ تیار رہیں۔ مختلف نکتہ نظر رکھنے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ اس فیصلے کے خلاف محاذ آرائی کریں یا عدلیہ کو عوامی دباؤ کے تحت اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر سکیں،فیصلہ متفقہ ہے اور اسے ماننے میں ہی آپ سب اور پاکستان کی بھلائی ہے۔محاذ آرائی کا وقت گذر گیا جب سیاسی شہادتیں ملا کرتی تھی اور عوام آپ کو مظلوم مان لیتی تھی،پاکستان کا سب سے اہم ادارہ آزاد و خودمختار ہو چکا اور وہ کسی بھی دباؤ یا تعصب کے بغیر قانون کے مطابق فیصلے دینے کے قابل ہو چکا ہے،اب عدلیہ کے جج نہیں بلکہ ان کے فیصلے بول رہے ہیں اور ممکن ہے کہ ہم وہ وقت دیکھ ہی لیں جب اس ملک میں ظلم و ستم کے کوہ گراںروئی کی طرح اڑ جائیں گے ۔۔اٹھے گا انا الحق کا نعرہ ۔۔جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ۔۔ اور راج کرے گی خلق خدا ۔۔ جو میں بھی اور تم بھی ہو۔۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں