Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج مبرور کی شرط ، ’’فسوق‘‘ اور ’’جدال‘‘ سے پرپیز

’’ فسوق ‘‘ سے مراد گناہ ہیں ، عام گناہ اور حالت ِاحرام کے ممنوعات بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ ان کا ارتکاب بھی گناہ ہے
مولانا محمد عابد ندوی ۔ جدہ
 
حج کے بے شمار فضائل احادیث میں مروی ہیں ۔ ان ہی میں ایک یہ ہے کہ حج کرنے کے سبب حاجی کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں  ۔ جس طرح کوئی بندہ   کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہوتا اور اسلام قبول کرلیتا ہے تو اس کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے اور اس کے نامۂ اعمال سے سابقہ گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں ، اسی طرح حج کا معاملہ ہے کہ اس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ حاجی کے سابقہ گناہ معاف کردیتا ہے اور وہ عملی اعتبار سے اس طرح نئی زندگی لے کر پلٹتا ہے کہ گویا وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو ۔ ایک طویل روایت حضرت عمرو بن العاصؓسے مروی ہے جس میں انہوں نے اپنے اسلام لانے کا تذکرہ اس طرح کیا :
جب اﷲ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی اورمیں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرلیا تو رسول اﷲ کی  خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلوں ۔ آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا  ۔ آپ نے فرمایا :
’’اے عمرو ! کیا بات ہے ؟ ‘‘  ۔
میں نے عرض کیا کہ  میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں ۔
فرمایا ’’وہ کیا شرط ہے ؟ ‘‘  ۔
میں نے عرض کیا کہ میری مغفرت کردی جائے ، آپ ( )نے یہ سن کر ارشاد فرمایا  :
’’کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام پہلے کے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور ہجرت بھی سابقہ گناہوں کو ختم کردیتی ہے اور بلا شبہ حج بھی پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے‘ ‘۔
 
حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک روایت اس طرح مروی ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا  :
’’جو شخص حج کرے اور اس میں کوئی گناہ اور شہوانی کام نہ کرے تو اس کے گزشتہ سارے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں‘‘۔‘ 
 
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے ایک دوسری روایت ان الفاظ میں مروی ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا  :
’’جو شخص اس گھر کی زیارت ( بیت اﷲ کا حج ) کرے اور اس دوران فسق و فجور اور شہوانی کام سے بچتا رہے تو وہ اس طرح واپس لوٹے گا   جس طرح وہ پیدائش کے دن تھا‘‘۔ 
 
روایت ہے کہ حضرت ابوذر غفاریؓ  کے پاس سے کچھ لوگوں کا گزر ہوا  ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ تم لوگ کہاں سے آرہے ہو ؟ جواب ملا ’’ مکہ سے ‘‘ پوچھا ’’ کیا بیت عتیق سے ؟ ‘‘ کہا ’’ ہاں۔ ‘‘ پھر ( حضرت ابو ذرؓنے ) دریافت کیا ’’ کیا تمہاری غرض تجارت اور خرید و فروخت بھی تھی ؟ ‘‘ انہوں نے جواب دیا نہیں، حضرت ابوذرؓ نے فرمایا  :
’’پھر تو اب نئے سرے سے عمل کرو ،جو گناہ ہوچکے اس کے وبال سے تم بچالئے گئے۔‘‘ یعنی پچھلے سارے گناہ معاف ہوچکے ، اب گناہوں سے بچتے ہوئے عمل صالح والی اچھی زندگی گزارو ۔
 
مذکورہ بالا روایت میں قافلۂ حجاج سے حضرت ابوذ  رؓ  کا یہ سوال کرنا کہ کیا مکہ مکرمہ جانے سے تمہاری غرض تجارت ، خرید و فروخت اور دنیاوی فائدے حاصل کرنا تو نہ تھی ؟ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ گناہوں کی معافی اور مغفرت کی عظیم خوشخبری اسی کے لئے ہے جو اخلاص کے ساتھ اﷲ ہی کے لئے حج کرے ، سفر حج کااصل مقصد دنیاوی غرض و غایت نہ ہو ، چنانچہ ایک روایت اس طرح مروی ہے ، حضرت ابوہریرہ ؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبی ( )  کویہ فرماتے سنا  :
’’جو شخص اﷲ کے لئے حج کرے اور اس میں گناہ اور شہوانی کام نہ کرے تو وہ اس طرح ( گناہوں سے پاک ) لوٹے گا جس طرح پیدائش کے دن تھا۔ ‘‘
 
دوسری اہم شرط حدیث میں یہ بیان کی گئی کہ حج میں ’’ رفث ‘‘ اور ’’ فسوق ‘‘ نہ ہو  ۔ قرآن پاک میں ایک جگہ ’’ رفث ‘‘ ، جماع کے معنیٰ میں آیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے  :
’’روزوں کی رات میں تمہارے لئے تمہاری عورتوں سے جماع حلال کردیا گیا۔ ‘‘
 
لیکن ’’ رفث ‘‘ کے معنیٰ میں مزید وسعت ہے ، حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ ، عبد اﷲ بن عمرؓسے مروی ہے کہ اس سے ہر لہو اور فحش بات مراد ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ ’’ رفث ‘‘  ایک جامع کلمہ ہے ۔ اس سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ایک مرد اپنی بیوی سے چاہتا ہے یعنی اس سے گویا لطف اندوز ہونے کے لئے جو قول و فعل بھی اختیار کیا جائے ، چاہے اشارہ اورکنایہ ہی کی صورت کیوں نہ ہو وہ سب ’’ رفث ‘‘ میں شامل ہے ۔
 
’’ فسوق ‘‘ سے مراد گناہ ہیں ، عام گناہ اور حالت ِاحرام کے ممنوعات بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ ان کا ارتکاب بھی گناہ ہے، جیسے شکار کرنا ، ناخن یا بال کاٹنا وغیرہ  ۔ گویا روایتِ بالا میں حج کی فضیلت اور مغفرت کی عظیم خوشخبری حاصل کرنے کے لئے یہ اہم شرط ہے کہ حاجی سفرِ حج میں شہوانی کام اور شہوانی باتوں سے نیز ہر طرح کے فسق و فجور اور گناہ کے کاموں سے بچتا رہے ، اس کی اہمیت کے پیش نظر قرآن پاک میں بھی اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ،  ارشاد باری تعالیٰ ہے  :
’’حج کے مہینے متعین ہیں ،پس جو کوئی اس میں حج لازم کرلے ( یعنی حج کا احرام باندھ لے ) تو اب اس کے لئے نہ کوئی شہوانی کام جائز ہے نہ گناہ اور فسق و فجور اور نہ ہی لڑائی جھگڑا ۔
 
آیت بالا میں ’’ لاجدال فی الحج ‘‘ ( حج میں لڑائی جھگڑا نہیں ) کہہ کر مزید ایک ممانعت کا ذکر ہے ۔ جدال لڑائی جھگڑے کو کہتے ہیں اس سے کیا مراد ہے ؟ اس سلسلے میں صحابہ و تابعین سے مختلف اقوال مروی ہیں۔ ایک تویہ کہ اس سے گالی گلوچ اور آپس میں جھگڑنا مراد ہے ، اس سے وہ مذاق اور ایسی گفتگو بھی مراد ہے جو دوسرے کو غصہ دلادے اورمعاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ جائے ۔ گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا خود گناہ کے کام ہیں ، اس طرح ’’ لا فسوق ‘‘ کے ذریعہ حج میں خاص طورپر ارتکاب معاصی سے روکا گیا ۔ اس میں جدال بھی شامل ہے ، کوئی مستقل حکم نہیں ، شاید اسی بناپر حدیث رسول میں اس کا تذکرہ نہیں، صرف پہلی2 ممانعت کے ذکر ہی پر اکتفا کیا گیا ۔ قرآن پاک میں خصوصیت کے ساتھ اس کو الگ بیان کرنے کی حکمت اہل علم نے یہ بیان کی کہ حج ایک عظیم اجتماعی عبادت ہے  ۔ سفر میں حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے ازدحام کے سبب اور لوگوں کی مڈبھیڑ میں بکثرت ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں ، جہاں نفس بے قابو ہو اور شیطان حجاج کو باہم دست و گریباں کردے ، اس لئے خاص طورپر یہ تعلیم دی گئی کہ حاجی ایسے مواقع پر لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے اور صبر و تحمل سے کام لے ۔
 
’’ لا جدال فی الحج‘‘ کی ایک تفسیر یہ بھی منقول ہے کہ حج کا مہینہ اور وقت متعین اور واضح ہوچکا، اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی ۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں ایک رسم ’’نسی ‘‘کی تھی کہ کفار مکہ 4 محترم مہینوں کی گنتی کا تو خیال رکھتے   تھے لیکن انہیں بعض اغراض و مقاصد کے سبب آگے پیچھے کرلیتے تھے ۔ ایک ہی مہینہ کو کسی سال حلال اور کسی سال حرمت والا قرار دے لیتے تھے ، اس طرح شریعت کے جو احکام و قت سے مربوط ہیں جیسے ذوالحجہ میں حج کی ادائیگی اور ماہ رمضان کے روزے وغیرہ ان کا اپنے اصلی وقت میں ادا ہونا غیر یقینی اور مشکوک سا تھا ۔ قرآن پاک میں اس رسمِ بد کی مذمت بیان کی گئی اور اسے کفر وضلالت سے تعبیر کیا گیاہے ۔ رسول اﷲنے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ میں یہ اعلان فرمایا کہ’’ زمانہ پھر پھراکر اپنی اسی ہیئت پر آگیا جس پر اس کو اﷲ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی پیدائش کے وقت رکھا تھا۔‘‘   یعنی حجۃ الوداع اپنے اصلی مہینے اور وقت میں ادا ہوا ، اس طرح اب آئندہ بھی حج کے وقت کے سلسلے میں کوئی شک نہ رہا ، اسی طرح کفارِ مکہ حج کے مواقف کے سلسلے میں بھی جھگڑے میں اور مختلف الخیال تھے ، جیسے بعض قبائلِ قریش حج میں عرفات تک نہیں جاتے تھے ۔ رسول اﷲ نے اپنے قول و فعل سے حج کے مناسک اور اس کی اصل  ہیئت کو واضح کردیا  ۔ اس طرح اب حج کے مناسک اور اس کے وقت وغیرہ کے سلسلے میں کوئی شک باقی نہیں رہا  ۔ یہی مطلب ہے ’’ لا جدال فی الحج ‘‘ کا ، امام قرطبی
ؒ نے اسی تفسیر کو زیادہ صحیح اور درست قرار دیا ہے ۔
 
 
 
 

شیئر: