Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاریخ کے منہ پر سیاہی

جن لیڈروں کے بارے میں ابواب نصاب میں شامل کئے جارہے ہیں یا جن کے ناموں سے عمارتیں منسوب کی جارہی ہیں، انہوں نے ملک میں کوئی کردار ادا نہیں کیا
* * * *معصوم مرادآبادی* * * *
مغل بادشاہ اورنگ زیب کے نام سے منسوب نئی دہلی کی ایک اہم شاہراہ کا نام تبدیل کرنے کے بعداب اترپردیش کے مشہور و معروف مغل سرائے اسٹیشن کا نام تبدیل کردیاگیا ہے۔ اس اسٹیشن کو آر ایس ایس کے لیڈر دین دیال اپادھیائے کے نام سے منسوب کرنے کی جو تجویز اترپردیش کی یوگی سرکار نے مرکزی حکومت کو روانہ کی تھی، اسے منظوری دے دی گئی ہے حالانکہ مغل سرائے اسٹیشن کا نام تبدیل کرنے کے خلاف گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ میں خاصی ہنگامہ آرائی ہوچکی ہے۔ دوسری جانب مغل سرائے کے باشندوں نے بھی اس تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کا کہناہے کہ مغل سرائے کی اپنی خاص پہچان ہے اور یہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ہم آپ کو بتادیں کہ مغل سرائے ملک کے4 بڑے اور مصروف ترین ریلوے اسٹیشنوں میں ایک ہے اور اکثر ریل انجنوں پر جلی حرفوں میں مغل سرائے کا نام لکھا ہوتا ہے۔ بی جے پی نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد ملک کا حلیہ بدلنے کی جو مہم شروع کی ہے، اس میں مسلم حکمرانوں کی بنائی ہوئی عمارتیں اور ان کے نام سے منسوب مقامات خاص طورسے نشانے پر ہیں۔ ان یادگاروں کو ختم کرنے اور انہیں سنگھ پریوار کے لیڈروں کے نام سے منسوب کرنے کی جو مہم شروع کی گئی ہے اس کی زد پر براہ راست ملک کی گنگا جمنی تہذیب ہے۔ سنگھ پریوار کا یہ جنون اتنا شدید ہے کہ وہ تاج محل جیسی شہرۂ آفاق عمارت کو بھی بری نظر سے دیکھ رہا ہے اور اسے بھی غلامی کی نشانی قراردیا جارہا ہے۔
پچھلے دنوں اترپردیش کی یوگی سرکار نے اپنے سالانہ بجٹ میں صوبے کے مختلف تاریخی اور تہذیبی شہروں کی ترقی کیلئے جو رقم منظور کی تھی اس میں تاج محل کے شہر آگرہ کو بالکل نظرانداز کردیاگیا تھا کیونکہ یوپی حکومت کی نگاہ میں آگرہ کا تاج محل حملہ آورو ں کی نشانی ہے اس لئے اس کی ترقی اور رکھ رکھاؤ سے حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ۔ ایسا کرتے وقت یوپی سرکار کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس حقیقت کو بھی فراموش کربیٹھے کہ جو بیرونی سیاح ہندوستان آتے ہیں، ان میں سے بیشتر صرف تاج محل کا دیدار کرنے کیلئے ہندوستان کا رخ کرتے ہیں۔ ان سیاحوں کی آمد سے ملک کو جوزرمبادلہ حاصل ہوتا ہے، وہ ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن تہذیبی قوم پرستی اور ملک کو ہندتو کے سمندر میں غرق کرنے کے شوقین سنگھ پریوار کے لیڈروں کو اس سے بھی کوئی سروکار نہیں ۔ انہیں تو صرف اس ملک میں مسلمانوں سے منسوب ہر شے کو مٹانے کی ضد ہے اور ان کی جگہ سنگھ پریوار کے ان لیڈرو ں کے نام رکھنے کا جنون ہے، جن کا اس ملک کی تعمیر وتشکیل میں کوئی کردار نہیں ۔ تازہ ترین شوشہ مرکزی حکومت کے ادارے سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے چھوڑا ہے۔ اس نے مرکزی وزارت ثقافت سے دریافت کیا ہے کہ تاج محل مقبرہ ہے یا مندر؟ یہ سوال دراصل سنگھ پریوار کے ان متعصب مؤرخین کی ریشہ دوانیوں کے بعد پوچھا گیا ہے جو تاج محل کو مندر قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں بہت تیزی کے ساتھ ہندتو کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مہاراشٹر تعلیمی بورڈ نے ساتویں اور نویں کلاس کیلئے تاریخ کی جو نئی کتابیں نصاب میں شامل کی ہیں ان میں تاج محل ، قطب مینار اور لال قلعہ جیسی شہرۂ آفاق یادگاروں کا کوئی ذکر نہیں۔ ان تاریخی یادگاروں کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ انہیں مسلم بادشاہوں نے تعمیر کرایا تھا اور یہ پوری دنیا میں اپنی تعمیری خوبیوں کیلئے جانی جاتی ہیں۔یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ تاج محل ہندوستان کا حسن ہے، قطب مینار اس کی عظمت ہے اور لال قلعہ اس کے جاہ وجلال کی علامت ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان نصابی کتابوں میں بوفورس گھوٹالے اور ایمرجنسی کو شامل کیاگیا ہے جبکہ رضیہ سلطان اور محمد بن تغلق کے باب غائب کردیئے گئے ہیں۔ شیواجی پر ان کتابوں میں ایک زیادہ بڑا باب شامل کیاگیا ہے۔ دوسری طرف ہریانہ سینٹرل یونیورسٹی میں پڑھائے جارہے نصاب میں آر ایس ایس کے نظریہ سازوں کو شامل کرلیاگیا ہے۔ اس نصاب میں اب سوامی وویکا نند کے ساتھ ہی آر ایس ایس کے بانی گرو گوالکر کے بارے میں پڑھایاجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی وی ڈی ساورکر ، دین دیال اپادھیائے کو بھی سیاسی مفکرین کے طورپر نصاب میں شامل کیاجارہاہے جبکہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ آر ایس ایس کے مذکورہ لیڈران کی سیاسی فکر تعصب اور بغض وعناد سے لبریز تھی اور یہ لوگ وسیع النظر ی کے سخت مخالف تھے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پوسٹ گریجویٹ سطح کے اس نصاب میں ان منفی تبدیلیوں کو بورڈ آف اسٹڈیز سے منظوری مل گئی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ماہ آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم نے ہائیرسیکنڈری کی نصابی کتابوں سے اکبر ،مرزاغالب اور رابندر ناتھ ٹیگور کو خارج کرنے اور ان کتابوں میں شامل اردو،فارسی کے الفاظ کو حذف کرنے کی باضابطہ تجویز وزارت تعلیم کو بھیجی تھی جس پر پارلیمنٹ میں کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ اب مغل سرائے اسٹیشن کا نام بدل کر دین دیال اپادھیائے کے نام سے منسوب کردیاگیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے جن لیڈروں کے بارے میں ابواب نصاب میں شامل کئے جارہے ہیں یا جن کے ناموں سے اسٹیشن یا عمارتیں منسوب کی جارہی ہیں، انہوں نے اس ملک کی تعمیر وتشکیل میں کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ اس ملک میں اپنے افکاروخیالات سے منافرانہ سیاست اور تعصب و تنگ نظری کو فروغ دیا ہے۔ ان لیڈروں کا مقصد ملک میں ایک مذہب، ایک کلچر اور ایک زبان کی اجارہ داری قائم کرکے ہندوراشٹر کی راہ ہموار اکرنا تھا۔ جبکہ مسلم حکمرانوں نے اس ملک میں جو اہم تعمیری اور اصلاحی کارنامے انجام دیئے ہیں، ان کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ یادگاریں ہماری تاریخ اور تہذیب کا بہترین ورثہ ہیں لیکن ہندتو کے جنون میں فسطائی طاقتیں ایسی تمام تاریخی وراثتوں کو ملیامیٹ کرنے پر آمادہ ہیں جن سے پوری دنیا میں ہندوستان کا چہرہ روشن نظر آتاہے۔ ان عمارتوں کو ختم کرکے اور ہندوستان کے عظیم کرداروں کو مسخ کرکے ان کی جگہ ایسے لوگوں کو قومی ہیرو قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے جنہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور ملک کی آزادی میں رخنہ اندازی کی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں