Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دومعاشروں میں پس جانے والی شہلا کا سوال ۔۔۔

جب آپ لوگ مغرب زدہ ہوہی گئے تھے تو پھر کیا وجہ تھی کہ مجھے مشرقیت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا؟
* * * تحریر:مصطفی حبیب صدیقی* * *
(کہانی سنانے والے نے اپنانام اور کرداروں کا حقیقی نام بتانے سے منع کیا ہے اس لئے تمام کردار کے نام فرضی ہیں تاہم مقام اصل لکھے گئے ہیں) وہ بھی بڑی عجیب لڑکی تھی اپنے حالات اور حقیقت سے سمجھوتہ کرنے کیلئے کسی طور تیار نہیں تھی۔کل تک جسے معلوم بھی نہ تھا کہ مشرق اور مشرقیت کیا ہوتی ہے اسے اب مشرقی بننے پر مجبور کردیاگیا تھا۔یہ کہانی ہے شہلا کی ،ایک ایسی لڑکی جو پیدا بھی مغربی تہذیب اور معاشرے میں ہوئی اور پلی بڑھی بھی وہیں۔اس کے ماں باپ کا خیال تھا کہ وہ اپنی بچی کو آزاد رکھنا چاہتے ہیں اسے قید نہیں کرنا چاہتے۔امریکہ کے ایک چھوٹے سے قصبے سے کاروبار شروع کرنے والے دلدار جانی کچھ ہی عرصے میں ترقی کرتے ہوئے نیویارک منتقل ہوچکے تھے۔گاڑیوں کی برآمدات کا کاروبار بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ اب وہ ’’جان دلدار‘‘ ہوچکے تھے۔کل تک پنجاب کے چھوٹے سے شہر میں رہنی والی شاہدہ بیگم اور مس شاہدہ اب شاہدہ جان کے نام سے پہچانی جانی لگی تھیں ۔
ایک شہلا کے علاوہ اللہ نے انہیں ایک بیٹے سے بھی نوازاتھا جس کا نام پیدائش پر تو سکندر جانی رکھاگیا تھا مگر وقت کی رفتار نے ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ا س کا نام تبدیل کرکے جان سکندر کردیاتھا۔یہاں تک تو صحیح تھا کہ ماں باپ اور بچے سب ہی مغربی تہذیب میں رنگ گئے تھے مگر مسئلہ اس وقت شروع ہوا کہ جب شہلا نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا بلکہ یوں کہہ لیں کہ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب شہلا کے بیا ہ کا وقت آگیا۔ شاہدہ جان اپنی بیٹی کی روز روز کی پارٹیوں اور رات گئے تک مخلوط دوستوں کے ساتھ سیر وتفریح سے اکثر چڑتی تھیں۔ ان میں اب بھی اپنی تہذیب،تمدن اور روایات کے چند قطرے باقی تھی جبکہ بعض اوقات جان دلدار کا خون بھی جوش مارتا اور وہ بھی بیٹی پر سختی کرتے مگر امریکی قانون انہیں زیادہ کچھ کرنے سے روکتا تھا جبکہ دوسری جانب سکندر جان تو بالکل ہی ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
ایک رات حد اس وقت ہوگئی جب شہلا ایک ایسے غیرمسلم نوجوان کے ساتھ رات دیر گھر آئی جو شراب کے نشے میں مست تھا یہاں تک کہ شہلا کے بھی منہ سے شراب کی بو صاف محسوس ہورہی تھی یہی وہ لمحہ تھا کہ دلدار جان نے شہلا کو پاکستان بھیج کر فوری شادی کرنیکا فیصلہ کیا۔ یہاں سے شروع ہوتی ہے شہلا کی کہانی۔امریکہ میں پیدا ہونے والی ،مغربی ماحول کی دلدادہ شہلا کو پنجاب میں خاندان کے ایک کم پڑھے لکھے شخص کے ساتھ بیاہ دیاگیا۔یہ طویل کہانی ہے کہ شہلا نے امریکی سفارتخانے سے بھی مدد لی اور پھر کیا ہوا مگر آخر کچھ سالوں کے بعد اسے اپنے زبردستی کے شوہر کے ساتھ ہی رہنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ شہلا کے ماں باپ سال میں ایک آدھ مرتبہ پاکستان کا چکر لگاتے ،پھر وقت تیزی سے نکلتا چلاگیا۔شہلا اور اس کے شوہر راشد میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔راشد چند زمینوں کا مالک تھا ،تعلیم تو اس نے بھی گریجویشن تک حاصل کررکھی تھی مگر ذہن اب بھی وہی وڈیرے والا تھا۔
شہلا اندر اندر گھٹتی رہی ،وہ جو راتوں کو دیر تک گھر سے باہر رہنے کی عادی تھی اب صورتحال یہ تھی کہ دن میں بھی کبھی کبھار ہی باہر جانا ہوتا۔ ایک دن شہلا کیلئے فیصلہ کن ثابت ہوا جب راشد کے دوست گھر پر مدعو تھے اور شہلا ان کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔چلو اگر بیٹھ گئی ہوتی تو بات چل جاتی مگر وہ تو ان کے ساتھ بے تکلف ہوچکی تھی جو راشد کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں تھا ۔راشد نے شہلا کو پہلی مرتبہ میں ہی دوستوں کے سامنے مغلظات بک کر برآمدے سے باہر نکال دیا۔ اب شہلا کے اندر کی مغربیت اصل میں جاگی۔ شہلا نے بھی اپنی اس بے عزتی کا بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔راشد کی کم تعلیم بھی شہلا کیلئے اس کی سطح تک آکر بات کر نے میں رکاوٹ تھی جبکہ راشد بھی خود کو بدلنے پر تیار نہ تھا۔شہلا کو ساس سسر اور نندوں کی طرف سے بھی طنز وجملوں کو سامنا رہتا۔پھر شہلا کو راشد کا ہی ایک کزن مل گیا جو نہایت عیار اور مکار تھا۔نام اس کا شہباز تھا۔شہباز نے شہلا کے اندر کی بے چینی دیکھ لی تھی ۔
وہ شہلا کی اندرونی تنہائی سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اور پھر وہ کامیاب بھی ہوگیا ۔ شہلا آہستہ آہستہ شہباز کی چکنی چپڑی باتوں میں الجھتی چلی گئی،وہ اسے اپنا ہمدردر اور غمخوار سمجھنے لگی ۔دونوں چپکے چپکے موبائل پر بات کرتے ،پھر یہ موبائل کی ملاقات چھپ چھپ کر باہمی ملاقات میں تبدیل ہوگئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ شہلا راشد کو اپنا حقیقی ہمسفر سمجھنے لگی۔وہ شہباز کی عیاری سے ناواقف تھی ۔شہباز کا مقصد بس شہلا کے ذریعے اس کے ماں باپ سے تعلق اور پھر امریکہ جانا تھا مگر ساتھ ہی ایک اور مقصد تھا اور وہ تھا شہلا سے تعلق۔ یہ غالباً 2005ء کی سردیوں کی بات ہے کہ دونوںنے ملاقات کا پروگرام بنایا۔شہلا ناآشنا تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے وہ اپنے سب سے ہمدرد اور قریبی دوست سے ملنے اس کے فلیٹ پر پہنچ چکی تھی۔دروازہ کھلا تو شہباز نے نہایت مکروہ مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا ۔شہلا ہنستے ہوئے گھر میں داخل ہوگئی مگر وہاں تو منظر ہی الگ تھا کمر ے میں 6لڑکے موجو د تھا ۔شہبا ز نے انہیں اپنا دوست بتایا اور پھر وہ ہوا جس کا ڈر تھا ۔شہلازبردستی پلائی گئی شراب میں بدمست ہوچکی تھی۔
نہایت بری حالت میں رات گئے ایک سڑک کے کنارے سے نیم مردہ جسم میں پائی گئی لڑکی شہلا کے نام سے شناخت کی گئی۔ فلاحی ادارے کی یمبولینس نے اسپتال پہنچایا، راشداور گھر والے اسپتال تو پہنچے مگر حالت دیکھ کر قبول کرنے سے انکار کردیا اور راشد نے اسپتال میں ہی شہلا کو اپنے بندھن سے آزاد کردیا۔ شہلا کی زندگی بچ چکی ہے جبکہ اس کے والدین اسے واپس امریکہ لے آئے ہیں مگر آج وہ زندہ لاش بنی ہوئی ہے۔اس کی آنکھیں اپنے والدین سے سوال کرتی ہیں کہ جب میری پرورش ہی آپ لوگوںنے مغربی ماحول میں کی ۔جب گھر کی عزت رات دیر تک گھر سے باہر رہتی تھی تو آپ لوگوںکو مشرقی تہذیب کیوں یاد نہ آئی؟کیوں آپ لو گ مغربی تہذیب کے دلدادہ ہوکر خود کو ’’جان‘‘ کے لقب دے چکے تھے اور جب مغرب زدہ ہوہی گئے تھے تو پھر کیا وجہ تھی کہ آپ لوگوںنے مجھے مشرقیت اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ دوتہذیبوں میں بٹ کر پس جانے والی شہلا کا سوال ہے کہ امریکی معاشرے میں ہی کتنے ہی ایسے مسلمان گھرانے ہیں جنہوںنے بھلے مغربی معاشرے میں روزگار تلاش کیا ہو مگر اپنی تہذیب وتمدن کو فرامو ش نہیں کیا۔شہلا کا اپنے والدین اور اس معاشرے کے دوچہروں سے سوال ہے کہ اس کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟وہ خود یا یہ معاشرہ جس نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔

شیئر: