Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو شریک سفریہاں ملا،تمنا ہے ابدی زندگی میں بھی ملے، فیروزہ پروین

جب گھرانے کے تمام افراد حرمین شریفین حاضر ہوئے، وہ زندگی کا یادگار دن تھا
زینت شکیل۔جدہ
مالک حقیقی نے انسان کو فہم و ادراک عطا فرمایا ، تفکر کی صلاحیت بخشی۔ اکثریت کے اندازفکرواقدار میں گہری یکسانیت پائی جاتی ہے جو پاکیزہ زندگی گزارنے کی خواہش دل میں بیدار کرتی ہے۔یہی انسانیت کا اعلیٰ مقام ہے۔
اس ہفتے ہوا کے دوش پر ہماری ملاقات سید ممتازاکبر کاظمی اور انکی اہلیہ محترمہ فیروزہ پروین سے ہوئی۔ممتاز کاظمی نے 1935ءمیںبھوپال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی ۔انکے والد سیدعلی اکبرکاظمی پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ممتاز کاظمی نے اپنے نام کی طرح معاشرے میں ممتاز حیثیت حاصل کی۔1960ءمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون فیروزہ پروین ان کی شریک سفر بنیں تو دونوں نے ایک دوسرے کے مطالعہ کے شوق کو سراہا اور معاشرے میں تعلیم عام کرنے میں ایک دوسرے کے مددگار بن گئے۔
فیروزہ پروین اور ممتاز کاظمی تحریک پاکستان کے تمام رہنما ﺅں کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتے تھے۔ اس لئے ان کے بارے میں مطالعہ کرتے تھے ۔خاص طور سے اس زمانے کا لٹریچر جس کے ذریعے مسلمانوں کو اس بات کی آگہی دی جاتی تھی کہ تم اس وقت تک اپنی حالت درست نہیں کر سکتے جب تک تم خودکوشش نہیں کرو گے۔اسی لئے فرما دیا گیا ہے کہ انسان کے لئے کچھ نہیں ہے سوائے اس کے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے ۔
محترمہ فیروزہ پروین نے کہا کہ ممتاز صاحب کی جانب سے حوصلہ افزائی کی گئی چنانچہ میں نے تعلیمی ادارہ قائم کیا ۔سعودی عرب میں ایک اسکول کی بنیاد رکھی جس کا نام”پاکستانی کمیونٹی اسکول ” رکھا جس میںعبدالفتح میمن نے بہت مدد کی اور اسکول چلانے میں ملک عباس نے بھر پور کردارادا کیا۔ انکا تعلق سیالکوٹ سے تھا ۔اسکول کے لئے انکی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے 1966ءمیں اسکول انکے حوالے کردیا۔
فیروزہ پروین کی سب سے بڑی صاحبزادی مونا کاظمی اپنے والدین کی بہت لاڈلی ہیں اور اپنے والدین کی طرح معاشرے میں تعلیمی کاوشوں میں حص لیتی ہیں۔ مونا کے تینوں بچے اپنے نانا جان کی طرح ذہین ہیں۔ محمد احمد نے یو ای ٹی، لاہور سے سول انجینیئرنگ 
 کی ڈگری حاصل کی اور آجکل تربیلا ڈیم پر جیوٹیک انجینیئر کے طورپر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد امین اسی یونیورسٹی سے انجینیئرنگ میں پوسٹ گریجویشن کے بعد ویب ڈیولپمنٹ میںاپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں ۔
مونا کاظمی نے دو مضامین انگریزی اوراسکول مینجمنٹ میں ماسٹرز کیا۔انکی بیٹی مریم نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے آرکیٹیک انجینیئزنگ کی۔وہ اپنی صلاحیتوں کو جلا دینے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جاب کرتی ہیں۔مونا کاظم اور انکے شوہر اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے معاشرے کی بھلائی کے کاموں میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری صاحبزادی ماھا کاظم نے ہسٹری میں ماسٹرز مکمل کر لینے کے بعد درس وتدریس کے شعبے کو اپنایا۔ وہ ایک اسکول کی وائس پرنسپل ہیں۔ انکی بڑی بیٹی ماہر تعمیرات ہیں جبکہ دوسری بیٹی ڈاکٹری کے دوسرے سال میں زیرتعلیم ہیں۔ تیسری بیٹی او لیول کی طالبہ ہیں۔ وہ اپنی نانی جان کو آئیڈیلائیز کرتی ہیں۔
سید ممتاز کاظمی کے صاحبزادے موسیٰ کاظمی بزنس ایڈ منسٹریشن میں پوسٹ گریجو یٹ ہیں اور ایک معروف تعلیمی ادارے کے سربراہ ہیں۔ فیروزہ پروین کی بڑی پوتی بتول ڈاکٹر بن گئی ہیں اور ہاوس جاب کر رہی ہیں۔ دوسری پوتی صاحبہ نے فائن آرٹس میں داخلہ لیاہے 
جبکہ انکے پوتے ابراہیم بھی طالب علم ہیں۔
سید ممتاز کاظمی اور فیروزہ پروین نے 1976ءمیںپاکستان واپسی کا فیصلہ کیا تو اپنے شوق اور لگن کے تحت اسکول قائم کرنے پر توجہ دی چنانچہ 1000گز پر ایک اسکول قائم کیا جس کا نام برائٹ فیوچر ہے ۔ انکے صاحبزادے اس اسکول کے پرنسپل ہیں جبکہ انکی بہو زہرہ ایڈمن انچارج ہیں۔فیروزہ پروین نے بتایاکہ ممتاز کاظمی صاحب دین کے کامو ں میں پیش پیش رہتے ہیں۔
ممتاز کاظمی نے کہا کہ انسان صحتمند ذہنی وجسمانی مشاغل کے باعث چاق و چوبند رہتا ہے ۔ انہوں نے اسی اصول کو زندگی بھر کےلئے اپنالیا۔ بھوپال سے ابتدائی تعلیم کے بعدعلی گڑھ سے انٹر کیا۔ اس کےلئے علی گڑھ کے ممتاز ہاسٹل میں 2 سال قیام کیا۔ دوران تعلیم سرسید احمد خان کو پڑھنے کا موقع ملا۔میں ان سے بہت متاثر ہوا۔ اس وقت تحریک پاکستان میں شامل بچہ مسلم لیگ میں بھی طالبعلم کے طور پر شامل ہوا۔ اس بچہ مسلم لیگ کو میرے اس وقت کے ہم جماعت پیر پگاڑہ تھے جو بعد میں پاکستان میں سیاسی میدان میں بہت آگے پہنچے۔ اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالدین تھے اور مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ ان کے انتقال کے بعدمیں انکے جناز ے میں شامل تھا۔ بعدازاں ڈاکٹر ذاکرحسین وائس چانسلر ہوئے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بھی رہے ۔
میں 1949ءمیں کراچی آگیا اور این ای ڈی میں انجینیئرنگ میں داخلہ لے لیا۔ بیچلرز ڈگری مکمل کرلینے کے بعد 1956ءمیں آرامکو،سعودی عرب میں ملازمت اختیار کی ۔ کئی اور کاموں کے ساتھہ الخبرمیں تقریباً4000 مکان تعمیر کئے اور اس کا اظہار ٹیلی وژن پر بھی ہوا۔دوران ملازمت میں نے سعودیوں کو بہت ایماندار اور انصاف پسند پایا ۔ انکی اسی خوبی کے باعث میں آج تک انکا احترام کرتا ہوں۔
فیروزہ پروین صاحبہ اس بات سے بہت خوش ہوتی ہیں کہ سید ممتازکاظم نے جہاں گھارو میں نو مسلموں کی رہائش کا انتظام کیا ، وہیں عام لوگوں کے لئے 20 بستروں کا آسرا اسپتال بھی قائم کیا جو ہر ایک کیلئے مفت خدمات فراہم کرتا ہے۔ اس اسپتال میں تمام وسائل موجود ہیں۔اس کا خرچ چلانے کےلئے” ممتاز میرج ہال“، ایک پکنک پوائنٹ اور ایک عدد موٹل کا قیام عمل میں لایا گیا جسکی تمام آمدنی اسپتال اور غرباءمیں تقسیم کی جاتی ہے ۔اس اسپتال کو 2001ءمیں قائم کیاگیا۔ نو مسلم سیٹلمنٹ کے تحت اب تک 87بڑے کنویں کھدوائے جا چکے ہیں۔ ان کنوﺅں کی گہرائی150 فٹ تک ہو تی ہے ۔ ان کے علاوہ 100چھوٹے کنویںبھی کھدوائے گئے جن کی گہرائی20سے 40 فٹ ہوتی ہے ۔ در اصل ان علاقوں میں پانی کی شدید قلت تھی اس کے علاوہ نو مسلموں کے لئے روزگارکا انتظام بھی کیا گیا۔ 
سید ممتاز کاظمی نے قرآن شریف کا ترجمہ 5 مختلف زبانوں عربی، انگریزی ،اردو، ہندی اور گجراتی زبان میں کیا اور دہلی سے اس کی طباعت کروائی ۔ اس کے بعد قرآن کریم کو ملک بھر کی لائبریریوں میں رکھوایا تاکہ لوگ اسے سمجھ کر پڑھ سکیں۔میری شروع سے یہی کوشش رہی ہے کہ ہر مسلمان قرآن شریف ترجمے کے ساتھ سجھ کر پڑھے۔کچھ کتابیں قرآن خوانی، قرآن فہمی، اس کے علاوہ شرک ، یتیم اور خطبات جمعہ کے حوالے سے لکھیں اور کالم بھی لکھے۔ علی گڑھ سے بے حدمحبت اور عقیدت تھی لہٰذا کراچی میں ایک ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائیز ایسوسی ایشن جوائن کیا جس کے اب وہ ایگزیکٹیو ممبر بھی ہیںاور اس ادارے کی خدمت کر رہے ہیں۔ 
سید ممتاز کاظم نے امریکہ اور برطانیہ کا دورہ کیااور اس نتیجے پر پہنچے کہ وہاں کے لوگ سڑکیں اورعمارتیں ایمانداری سے تعمیر کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کئی صدیاں گزر جانے پر بھی وہ اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ 
فرخ اصفہانی ان کے ماموں ہیں جن کی شاعری انہیں بے حد پسند ہے ۔ممتاز کاظمی کا کہنا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ میں آج جہاں ہو اس کا تمام کریڈٹ میری اہلیہ کو جاتا ہے اگر فیروزہ پروین میرا حوصلہ نہ بڑھاتیں اور میرے کاموں میں مدد گار نہ بنتیں تو میں یہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا ۔میں نے اپنی والدہ سے ایک ہی بات کہی تھی کہ شادی ایسی لڑکی سے ہونی چاہئے جو سلجھی طبیعت کی مالک ہواور اس نے ماسٹرز کر رکھا ہوکیونکہ ساری دنیا ماسٹر لوگوں کے بنائے ہوئے فارمولے کی نقل کرتی ہے ۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، فارمولے ماسٹر مائنڈہی بناتے ہیںاور ایک دنیا ان پر چلتی ہے۔ فیروزہ پروین نے کانپور سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا اورپھر اسکا استعمال بھی خوب کیاہے ۔وہ اس بات کی تمنا کرتی ہیں کہ جنت میں بھی وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہوں ، جو شریک سفرعارضی زندگی میں ملا، وہی ابدی زندگی میں بھی ملے۔ 
محترمہ فیروزہ پروین کا کہناہے کہ وہ دن جب ہمارے گھرانے کے تمام افراد حرمین شریفین حاضر ہوئے، وہ ہماری زندگی کاسب سے یادگار دن بن گیا کیونکہ ہم 3 نسلوں کے افراد نے ایک ساتھ، ایک ہی وقت میں عمرے کے ارکان اداکئے ۔ 
سید ممتاز کاظمی کے سب بچے نہایت فرمانبردار ہیں اور اسکا کریڈٹ وہ اپنی اہلیہ کو دیتے ہیں۔ مرد کو چونکہ باہر کاکام کرناہوتا ہے اس لئے عورت پر بچوں کی تربیت کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے ۔نسلِ نو کو وہ تمام تصاویر بہت بھاتی ہیںجن میں ان کے بزرگ اپنے سے کئی گنا بڑے جانور کا شکار کرتے اورپھر بندوق پکڑ کر اس کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔1956ءکی وہ تصویر بھی بہت یادگار ہے جب دہران، سعودی عرب میں ممتاز کاظمی سرکاری دورے پر آنے والے جواہر لال نہرو کے ساتھ خوش گوار موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: