Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندوستانی مسلمان چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنا سیکھیں،مولانا خلیل الرحمان سجاد

 
امین انصاری۔ جدہ
 
ہندوستانی مسلمان چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنا سیکھیں ۔ چیلنجز تو آتے ہی ہیں قوموں کو پروان چڑھانے کیلئے ۔ وہ کونسی قوم ہے جس نے  چیلنیجز کے بغیر ترقی حاصل کی  ۔  ہمیں ہندوستان کی موجودہ منفی صورتحال کو دیکھتے ہوئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ ان خیالات کا اظہار مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے جدہ میں  انڈیا فریٹرنٹی  فورم کی جانب سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا خلیل الرحمان نے کہا کہ آج ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ  جن  حالات سے گزر رہی ہے وہ آج سے پہلے کبھی نظر نہیں آئے  لیکن ہندوستان میں اس منفی عمل سے   جتنے مثبت امکانات نکل کر سامنے آرہے ہیں  وہ اس سے پہلے کبھی ہمارے ملک میں نہیں ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ  ملک میں بڑے پیمانے پر  ایک غلط فہمی پھیلائی گئی کہ ہندوستان میں صرف دو قومیں رہتی ہیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان  جبکہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ ہندوستان میں 6000   سے زائد قومیں رہتی ہیں لیکن سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کیلئے ہزاروں عقائد کے لوگوں کو ہندو بنایا گیا اور انہیں ہندوؤں کی گنتی میں شمار کرکے خود کو اکثریتی طبقہ  ثابت کیا گیا ۔ڈاکٹر امبیڈ کر آزادی کے بعد برطانوی حکمرانوں  کو یہ ثابت کرنے میں کامیا ب ہوگئے کہ سکھ ، آدی واسی ، شیڈول کاسٹ ،ٹرائلس ، لنگایت ، او  وی سیز ، جو کروڑوں میں ہیںہندو نہیں ہیں ۔ جب برطانوی حکمرانوں نے اس بات کو مان لیا تب برہمنوں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر ان طبقوں کو الگ کردیا جاتاہے تو مسلمان اکثریت میں آجاتے ہیں لہذا  گاندھی نے مرن برت رکھا اور پھر ایک پلاننگ کے تحت ہندو ازم کوبڑھاوا دیا گیا  اور ان ذاتوں کو جبرا ہندوازم میں شامل کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ جنوبی ہند میں لنگایت ذات کا طبقہ  جو 7.5 کروڑ لوگوں پر مشتمل ہے  آزادی سے پہلے نان ہندو تسلیم کیا جاتا تھا اور آزادی ملتے  ہی  انہیں اچانک  ہندو تسلیم کرلیا گیا اور زبردستی انہیں ہندو بنایا گیا  جبکہ یہ قوم مورتی پوجا کے خلاف ہے اور وہ خود کو ہندو نہ بنانے پر 60  مرتبہ گورنمنٹ سے نمائندگی  کرچکی ہے  لیکن ان کی بات سنی ان سنی کرکے  انہیں ہندو ازم سے خارج نہیں کیا گیا۔ اسی طرح دیگر اور قومیں اور ذاتیں ہندو ازم کے خلاف ہیں ۔جب مسلم پرسنل لا نے ان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں افسوس اس بات پر ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کبھی ہمیں سمجھا ہی نہیں بلکہ وہ تو ہمیں ہندو ہی سمجھتے رہے جبکہ ہم ہندو نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندوستان میں یکساں سول کوڈکیلئے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تو مسلم پرسنل لا بورڈ  بھی ایک فریق بنا  اس پٹیشن کے خلاف ۔ ہم نے آدی واسیوں سے بات کی تو انہوں نے  مخالفت  میں فریق بن کر پٹیشن داخل کی ۔ اسی طرح لنگایت قوم نے بھی سپریم کورٹ کو بتادیا کہ ہم کسی بھی صورت یکسا ںسول کوڈ کے حق میں نہیں اور وہ بھی فریق بن گئے ۔ اس طرح کئی  غیر مسلم  ذاتوں نے خود کو ہندو نہ مانتے ہوئے فریق بن کر پٹیشن داخل کی ۔ مولانا نے کہا کہ ملک کی موجودہ  صورتحال ہمارے لئے مثبت ثابت ہورہی ہے اور مسلمانوں کے اندر بیداری  کی  لہر چلی ہے ۔فاشسٹ طاقتیں اس لہر کو توڑنے کیلئے دنگے فساد کرکے ایک طرف مسلمانوں کے سکون  کو درہم برہم کرتے ہوئے انکے  ذہن کو منتشر کرنے کی کوشش کررہی  ہیں  تو  دوسری طرف شیڈول کاسٹ لنگایت وغیرہ ذاتیں جو ہندو ازم سے نکلنا چاہتے ہیں انہیں ہندوازم میں رکھنے کیلئے ان فسادات کو ہوا دے رہی ہے ۔ مولانا نے کہا کہ مسلمانوں میں مطالعہ کا رواج نہیں۔ اگر ہم  اپنے  ملک اور اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یقینا ہم قوم و ملت کیلئے  احسن طریقے سے کام کرسکتے ہیں ۔ انہوںنے  کہا کہ آج غیر جمہوری طاقتوں نے  طے  کرلیا ہے کہ ہندوستان کو کس سمت میں لیجانا ہے ۔ وہ راتوں رات تبدیلی چاہتے ہیں اور یہی جلد بازی ہمیں جگانے اور متحدہونے کا ذریعہ بن گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جس قوم کو پڑھنے کا حکم دیا گیا وہ آج علم سے دور  ہورہی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن اور تاریخ کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں کیونکہ قرآن کا اعجاز ہے کہ وہ  نفسیات کو تقویت بخشتا  اور حوصلوں کو بلند کرتا ہے ۔ ہمیں حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔چیلینجز تو قوموں کو جگانے کیلئے آتے ہیں ہمیں  ہمت اور حوصلوں سے اس کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ فتح مکہ کی تاریخ کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں  دیکھیں ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نبی ؐ کے طریقے کار پر کام کرینگے تو وہ غیر مسلم جو خود کو ہندو نہیں سمجھتے انہیں اپنے قریب  کرنے میں دیر نہیں لگے گی ۔
دریں اثناء فرزان رضوی نے مہمان خصوصی اور انڈیافریٹرنٹی  فورم کا تعارف پیش کیا ۔ محمد غنی نے پروگرام کی تفصیلات اور اس انعقاد کے مقاصد کو پیش کیا ۔
صدر فریٹرنٹی  فورم نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شرکت پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ فٹرنیٹی فورم مملکت بھر  میں قوم و ملت کی خدمت کررہا ہے  خاص کر حج میں 2500 والنٹیرز نے خدمات انجام دی اور یہ سب قونصلیٹ کے تعاون سے ممکن ہوسکا ۔ 
ہندوستان سے آئے ہوئے مہمان اعزازی مولانا عبدالرحمن باقوی نے کہا کہ فٹرنیٹی فورم جو کام کررہی ہے وہ  یقینا قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کیرالا میں مساجد کے اماموں پر کام کررہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ امام صرف نماز پڑھانے والا نہ ہو بلکہ وہ قوم و ملت کا حقیقی رہبر اور رہنما ہوجس کی روشنی میں امت مسلمہ دین و دنیا کی کامیابی حاصل کرسکے ۔ 
تقریب کا  آغاز قاری محمد زکریا بلادی کی تلاوت سے ہوا  جبکہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں امین انصاری نے ہدیہ نعت پیش کیا ۔ زکریا بلادی نے خوبصورت انداز میں نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔ 
انڈیا سوشل فورم کے صدر محمد اشرف نے شکریہ کا اہم فریضہ ادا کیا اور کہا کہ خیر کا کام کرنے سے ہماری دنیا و آخرت سنور سکتی ہے ۔  
 

شیئر: