Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ا طاعتِ رحمۃً للعالمین ﷺ میں مضمر ، حبِ رب العالمین

آپ کی لائی ہوئی شریعت کے بعد کوئی بندہ اس امر کا مجاز نہیں کہ اپنی خواہش سے اس میں سے اخذ کرے اور اپنی مرضی سے جسے چاہے ترک کرے
* * *ڈاکٹر سعید عنایت اللہ۔مکہ مکرمہ* * *
اللہ تعالیٰ، خالق مطلق کی جملہ مخلوقات میں جنہیں اس نے نور سے ، نار سے یا مٹی سے بنایا،سب میں عظیم ترمخلوق حضرت انسان ہے۔ پھر انسانوں میں انسان کامل، بے مثل بشر، سیدالانبیاء، افضل المرسلین جناب محمد رسول اللہ ہیں۔ وہ اہل ایمان کے لئے اللہ کی مخلوق میں جب تک محبوب اعظم نہ ہوں، کوئی بندہ ایمان کے دروازے سے داخل ہی نہ ہوسکے۔فرمان نبوی ہے کہ ’’تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے والدین، اس کی اولاد اور دیگر تمام لوگوں سے اسے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں‘‘ بلکہ اگرکسی شخص کو رسول اکرم سے زیادہ کوئی دوسرا شخص عزیز ہوا تو یہ علامت ہے غضبِ رب کو دعوت دینے کی۔ ارشادربانی ہے ’’اے نبی()! کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز واقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ، تم کو اللہ اور اس کے رسول() اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز ترہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے ‘‘(التوبہ24) یعنی اس امر پر اللہ تعالیٰ نے اپنی پکڑ کی دھمکی دی کہ کوئی چیز اللہ اور رسول سے زیادہ محبوب نہ ہوجن کا مقام ِعالی یہ ہے کہ آپ کی رسالت پر ایمان اور آپ کی نصرت پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے عہدوپیمان لیا۔
ارشاد الہٰی ہے’’یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جوپہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی ، یہ ارشاد فرماکر اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، ہم اقرار کرتے ہیں ‘‘(آل عمران81) رب تعالیٰ نے اپنی الوہیت کی شہادت اور جناب محمد رسول اللہ کی رسالت کی شہادت کو اس طرح مربوط فرمادیا کہ شہادت کا پہلا جز بغیر دوسرے کے اور دوسرا جز بغیر پہلے کے نہ صرف ناتمام ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود وناقابل اعتبار ہے۔
اسی امر کا اعلان اور اسی مقام کی شہادت، باآواز بلند، دنیا کے شرق وغرب ، شمال وجنوب کو رات دن، اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے اپنی اذان میں اشہد ان لا الہ الا اللہ اور اشہد ان محمدا رسول اللہ کہہ کر دینا ہے۔ پھر اپنی نمازمیں بھی اسی شہادت کے اعتراف کو د ہراتا ہے۔آفتابِ رسالت محمد ،یہ ایسا سراج منیر ہے کہ طلوع ہوا تو تاقیامت چڑھتا ہی چلا جائے گا، اسے غروب نہیں، ظاہر ہوا تو ظاہر ہی ہوتا چلاجائے گا۔ رب تعالیٰ نے اپنے رسول ()کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ آپ کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب فرمادے، چاہے کافر وں اور مشرکوں کو یہ بات ناپسند لگے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے اور اس کا ہر فیصلہ انسانی تدبیروں پر غالب ہی رہتا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جس میں تبدیلی نہیں۔ سید المرسلین پر نازل ہونے والی شریعت خاتم الشرائع ہے، اس کے بعد رب تعالیٰ کی طرف سے نئی ہدایات ، نئی شریعت، نئی آیات، نئی آحادیث، نئے کلام کا تصور یا خیال در اصل رب کے فیصلے اور اس کے رسول کی خاتمیت پر بے یقینی ہے۔ اس کے اختیار میں عیب جوئی اور نقص ہے۔ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اس میں شک وریب نہیں۔
وہ وحی ٔربانی ہے، وحیٔ متلو ہے، وہ متواتر طور پر منتقل ہوا۔نزول سے آج تک سینوں میں محفوظ پھر اوراق میں مسطور مگر اس کا نزول کتاب کی شکل میں بیک وقت نہیں ہوا بلکہ اسے مہبط وحی، قرآن مجسم کے قلب مبارک پر، روح الامین لیکر آئے۔ اس قرآن ناطق کے لئے مہبط بھی ہمارے پیارے نبی قرآن مجسم ہیں جن کے بارے میں ام المومنین عائشہ صدیقہ بنت صدیق اکبرؓ فرماتی ہیں کہ ’’آپ مجسم قرآن کامل تھے‘‘ جناب محمد رسول اللہ کی یہ شان ہے کہ’’وہ اپنی خواہش سے نہیںبولتے، یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے‘‘ جناب خاتم النبیین جب فرمائیں گے تو وحی سے فرمائیں گے، آپ کسی امر پر خاموش رہیں تو یہ آپ کی طرف سے اقراراورتشریع سمجھی جائے اور آپ کا ہرقول، ہرفعل ، ہرتقریراور ہر امر حدیث مقدس شمار ہوگی جس کو نقل کرنے کے لئے ثقہ رجال، متصل سند کے ساتھ، زمانۂ تعلق سے زمانۂ جمع تک پھر آج تک اور قیامت تک مامور تھے،ہیں اور رہیں گے۔ وہ ذات گرامی جن کی نبوت ورسالت جملہ انسانیت کے لئے نعمت ربانی ہے،وہ ایسی نعمت ہے جس کوبقا حاصل ہے، جو بندوں کو ملنے کے بعد ان سے سلب نہ ہو، یہی حضرت خاتم النبیین کی ختم نبوت کا مفہوم ومدلول ہے۔
چونکہ رسول اکرم کی رسالت وشریعت بھی حضرت خاتم النبیین کی طرح خاتم الشرائع ہے تو آپ کی امت بھی خیر امت ہے ، وہ امتِ وسط بھی ہے اور خاتم الامم بھی ہے ۔ہمارے اور انسانیت کے یہ اعزازات اللہ کے فضل وکرم سے اور رحمت رب العالمین کے اس مقام عالی کے سبب ہیں۔ یہی وجہ ہے آپ کے بعدنبوت کا دعویٰ کذب ودجل ہے اور ہر مدعیٔ نبوت کذاب ودجال اور اس دجال کی امت بھی شر الامم ہے۔ جب جنابِ محمد رسول اللہ رب العالمین کی طرف سے رحمت للعالمین ہیں تو آپ کے بعدنبوت کا دعویٰ اس رحمت سے انسانیت کو محروم کرنے کی ایسی سازش ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بغاوت ہے اور بغاوت کرنے والا اللہ تعالیٰ کی سلطنت میں سب سے بڑا مجرم ہے۔ وہ انسانیت کے ساتھ بھی دھوکہ دہی کرنے کی سزا کا موجب ہے کیونکہ صرف ہمارے رسول اکرم ہی کو یہ حکم ہوا کہ آپ یوں اعلانِ رسالت فرمائیں’’(اے محمد!) کہو کہ اے انسانو، میں تم سب کی طرف اس اللہ کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘‘(الاعراف158)
کوئی کسی زمانہ کا ہو ، دنیا کے کسی کونے میں رہتا ہو، وہ آپ کی دعوت سے خارج و مستثنیٰ نہیں۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان صرف آپ ہی کے بارے میں ہے’’ اور (اے نبی!) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لئے بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے‘‘ (سباء 28)صرف آپ ہی کو جملہ انسانوں کے لئے تمام شعبہ ہائے زندگی میں نمونہ بنایا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول() میں ایک بہترین نمونہ تھا‘‘ (الاحزاب21) آپ کی لائی ہوئی شریعت کے بعد کوئی بندہ اس امر کا مجاز نہیں کہ اپنی خواہش سے اس میں سے اخذ کرے اور اپنی مرضی سے اس میں سے جسے چاہیں ترک کرے۔ ارشاد ربانی ہے ’’جو کچھ رسول() تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ‘‘ (الحشر7)ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول () کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول() کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا ‘‘(الاحزاب36) صرف جناب محمد رسول اللہ کی ذات گرامی ہے جن کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جس نے رسول () کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی‘‘(النساء80)خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا’’(اے نبی! لوگوں سے )کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزرفرمائے گا‘‘(آل عمران31)جب تک قرآن باقی ہے، یہ اعلان بھی باقی رہے گا۔ یہی آپ کا وہ مقامِ رحمت للعالمین ہے جو محبت رب العالمین کی دلیل ہے۔ یہ اس عظیم ہستی کا کچھ تعارف ہے۔ ہمیں اس وقت ٹھنڈے دل سے اس امر میں غور کرنا ہے کہ جو رسول جملہ انسانیت کے لئے رحمت ،ان کے لئے نجات دہندہ بنکر آئے، وہ انہیں ان کے جملہ بحرانوں سے نکالنے والے ہوں ، ان کے اقتصادی، ان کے معاشرتی اوران کے خلاقی بحرانوں کے حل لے کر آئے ہوں، جو ان کی دنیا وآخرت کی صلاح وفساد کا واضح بیان لے کر آئے، جنہوں نے اپنی سیرت سے اللہ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرکے بتایا، اس میں تمہارا کمال ہے، اس میں تمہاری صلاح ، اس میں تمہاری نجات ہے، آج ہمارا آپ سے رشتہ، آپ سے محبت، آپ کی غلامی کاہمارا دعویٰ، کیا ہمارا عمل اسی کی تصدیق کرتا ہے یاتکذیب کررہا ہے؟ کیا ہمارے کردار میں سیرت مصطفی کی چھاپ ہے؟ وہ ہمارے پیارے نبی جو ہماری زندگی کی نوید لیکر آئے جس طرح اللہ نے فرمایا’’اے ایمان لانے والو! اللہ اور اس کے رسول() کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسول() تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے‘‘(الانفال24)
کیا ہمیں وہ حیات جو نبی کی اطاعت سے نصیب ہوتی ہے حاصل ہے؟ یا ہم ’’امواتِ غیر احیاء ‘‘ ایسے میت ہیں جن میں زندگی ناپید ہو۔ وہ انسان کامل جو اپنی سیرت سے ہمیں انسان بنانے آئے، کیا واقعی ہم ایسے انسان ہیں؟ یا ہم’’ کالانعام‘‘ہیں اور انسانی کردار سے عاری ہوگئے ہیں؟ جو نور بصیرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لیکر آپ مبعوث ہوئے کیا وہ نور ہمیں حاصل ہے؟ کیا ہم اس روشنی میں چل رہے ہیں؟ یاجاہلیت کی ظلمات اور تاریکیوں میں ہیں۔ ہمارا کردار سیرت مصطفی سے میل کھاتا ہے؟کیا ہم باشعور، باخبر،باکردار، باحیات زندہ انسان ہیں؟یا اس پتھر کی مانند ہیں جو نہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں ایسے انسان جو حق کہنے کو تیار نہیں، حق سننے کو تیار نہیں، حق قبول کرنے کو تیار نہیں،وہ جو ’’صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ‘‘ کی تمثیل ہیں۔ ہمیں ان حقائقِ قرآنیہ میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارا رب چاہتا ہے کہ ہم زندہ انسان بنیں، باشعور، باخبر، باکردار، صالحین اور مومنین بنیں، ایسے بندے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ ہو مومن ، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے ‘‘(النحل97)دنیا میں یہ اکرام پھر (اسی آیت میں آگے فرمایا) ’’(اور آخرت میں)
ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘یہی غرض ہے بعثت ِمصطفی کی، یہی حیات طیبہ ہے جو سچے عاشقوں اور محبین صادقین کو عطا ہوتی ہے۔ہم غور تو کریں کہ جس نبی کی طرف ہماری نسبت ہے کیونکر آپ نے اپنی قولی دعوت سے پہلے اپنی عملی دعوت پیش کی ، ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی قول وقرار سے پہلے اپنی سیرت کو پیش کریں تاکہ ہماری دعوت بااثر ہو۔ آپ کی سیرت کا ہر صفحہ آفتاب کی طرح روشن ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اس سیرت مطہرہ کا مطالعہ محض سوانح عمری اور قصص کو حفظ کرنے کی خاطر سے نہ کریں بلکہ اسوۂ حسنہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنانے اور اپنی اصلاح وتعمیر، اپنے مقاصد اور اہداف کی تعیین ، ان کے حصول کے لئے جد وجہد، اپنے واجبات کی ادائیگی اوراپنے کردار و سیرت دونوں میں میل پیدا کرنے کے لئے ہو۔حضرت عائشہ نے تو آپ کی سیرتِ مطہرہ کے بارے جو بات فرمائی اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ قرآنِ ناطق اور قرآنِ مجسم تھے۔
در اصل ہدایات ربانی اور اس کی عملی تطبیق کے یہ دو مظہر ہیں جن کی طرف ہم مسلمان منسوب ہیں اور جن کی طرف ہماری نسبت ہمارے لئے باعث شرف ہی نہیں بلکہ باعث ہمت وعزیمت بھی ہے جس کا تقاضا ہے کہ مسلمان سنجیدگی سے فیصلہ کریں کہ انہیں ان ہدایاتِ ربانی کو اپنی عملی زندگی میں لانا ہے۔ ان سطور میں ہم نے اپنے قارئین کے لئے آپ کی سیرت طیبہ میں سے2اقتباسات اور ایک تیسرا اقتباس آپ کی مثالی اطاعت سے پیش کریں گے۔ قبل اس سے کہ ہم ان اقتباسات کوبیان کریں پھر اپنے کردار کو سیرت مصطفی سے موازنہ کریں ، ہمیں اس معاشرہ پر نگاہ ڈالنی ہے جس میں آپ کی بعثت ہوئی۔ اس معاشرے کی دینی حالت جو ضلال مبین کا مظہرا تم تھی، وہاں معبود برحق کی توحید کی بات توکجا، خود اس کا گھر (بیت اللہ) صنم کدہ بنا ہواتھا، ہر گھر کا اپنا معبود، اپنے معبودوں کو خود بناتے یا خریدتے اور فروخت کرتے پھر پوجتے۔اس معاشرے میں انسانی رحمت و شفقت خود اپنی ضعیف وناتواں اولاد کے لئے نہ تھی تو دیگر کے لئے کہاں ہوتی؟ محرمات پر فخر کرنے والے حلال وحرام کی کیا تمیزرکھتے جن کے ہاں امن کی یہ حالت ہے کہ وہ سفر واسفار اور تجارتوں کی غرض سے بھی صرف حرمت والے مہینوں میں نکلتے۔
کس طرح ہادیٔ برحق ،نبیٔ خاتم جناب محمد رسول اللہ نے اس معاشرہ کو صالح معاشرہ اور اس زمانے کے انسانوں کو پوری دنیا کے لئے نمونہ کا انسان بنادیا۔ آپ کے پاس اس عظیم الشان انقلاب برپا کرنے کے لئے کون سی عسکری قوت، عددی طاقت اور افرادی کثرت تھی کہ آپ قوت کے بل بوتے پر کسی خونی انقلاب کے ذریعہ اس معاشرے کے فساد کو ختم کرتے ، ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ آپ کا انقلاب دلوں کا انقلاب تھا، اخلاق کا انقلاب تھااور اعمال کا انقلاب تھا۔ رہی قوت یا عددی طاقت تو آپ خود یتیم پیدا ہوئے ، بچپن ہی میں والدہ کا سایہ اٹھ گیا، پھر مربی دادا اور چچا بھی اس دنیائے فانی سے رحلت کرگئے۔ اب آپ کا بچپن ،لڑکپن، شباب الغرض 40 سال نبوت سے قبل آپ نے کس طرح اپنے معاشرہ میں صدق وامانت سے گزارے جو انسانوں کے سامنے کھلی کتاب ہے۔ سیرت کا ہر پہلو مدون ہے، ہر زبان میں میسر ہے۔
آپ کی ولادت، رضاعت، طفولیت، شباب، صداقت، عفت، امانت، آپ کے خطوط وجواب، آپ کی مکی زندگی، ہجرت، مدنی زندگی، غزوات، اہل مکہ سے فتح کے بعد ملاقات، پھر رفیق اعلیٰ سے ملاقات، ان تمام واقعات وحالات کو صحابہ کرامؓ نے محفوظ رکھا۔ جامعین سنت اور اہل سیر نے مدون ومحفوظ فرمادیا۔ الغرض جب رسول اکرم اپنی عمر مبارک کے40 ویں سال میں قدم رکھتے ہیں تواللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے خلوت کو محبوب بنادیا تو آپ غار حرا جو شہر سے باہر ، نہ بہت دور نہ بہت قریب، پہاڑ کی چوٹی نہ بہت بلند ،نہ بہت پست میں تشریف لے جاتے ، کئی کئی راتیں گزارتے جو تعبد میں گزرتیں۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ کے اوپر وحی کا آغاز ایسے خوابوں سے ہوا جو صبح کی روشنی کی طرح واضح ہوتیں پھر آپ کے لئے خلوت کو محبوب بنادیا گیا۔ آپ غار حرا میں کئی کئی راتیں گزارتے، پھر گھر لوٹتے، حضرت خدیجہؓ کے ہاں سے مقدار ضرورت زاد لے جاتے، یہ خلوت برائے تعبد ہوتی۔یہاں تک کہ آپ کے پاس وہیں غار حرا میں حق آگیااور جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آگئے۔ گویاجاہلیت کی ہر خصلت سے اپنے نبی کی حفاظت اور عصمت، خلوت سے محبت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتخاب، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی جانب سے وحی کا نزول،یہ سب امور من جانب اللہ تھا، اپنے نبی() کے لئے۔ یاد رکھیں کہ نبوت ،انسانی پلاننگ،کسی کے انتظار یا انسانی تعلیم وتربیت کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ یہی نبوت حقہ اور نبوت کاذبہ میں واضح فرق ہوتا ہے۔خود حق تعالیٰ آپ کو مخاطب ہوکر فرماتے ہیں’’ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے ، تمہیں تو کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے‘‘ (الشوریٰ52)'

شیئر: