شام کی حکومت نے سرکاری فورسز اور اقلیتی دروز قبیلے کے درمیان کئی دن جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد جنگ بندی کا نیا اعلان کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ان جھڑپوں کے بعد طاقتور پڑوسی ملک اسرائیل نے بھی لڑائی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ شام کی وزارت داخلہ اعلان اور دروز کمیونیٹی کے مذہبی رہنما کے ویڈیو پیغام سے ذریعے کیا گیا جنگ بندی کا اعلان مؤثر ہو گا یا نہیں۔
مزید پڑھیں
فریقین کے درمیان ابھی چند دن قبل طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ بہت کم وقت میں ٹوٹ کیا تھا۔
ایک اور نمایاں دروز مذہبی رہنما شیخ حکمت الہجری نے اس نئے معاہدے کو نامنظور کیا ہے۔
نئے جنگ بندی معاہدے کی خبر ایسے وقت میں سامنے آئی جب اسرائیل نے جنوبی شام میں دروز کے حمایت کرتے ہوئے کئی سرکاری فورسز کو نشانہ بنایا اور دمشق میں بعض مقامات پر بمباری کی۔
اس سے قبل بدھ ہی کو شام کے جنوبی شہر السویدا میں دروز اقلیت کے عسکریت پسندوں اور شامی افواج کے دوران جاری لڑائی میں تیزی آ گئی تھی اور اسرائیل بھی اس جنگ میں شامل ہو گیا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق شام کی سرکاری فورسز اور دروز قبیلے کے درمیان جنگ بندی معاہدہ اس وقت ختم ہو گیا تھا جب اسرائیل نے دروز قبیلے کی حمایت میں لڑائی میں شامل ہونے کی دھمکی دی تھی۔
اسرائیل کی فوج نے کہا ہے کہ انہوں نے دمشق میں شامی وزارت دفاع کے داخلی راستے کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیل نے جنوبی شام میں سرکاری افواج کے قافلوں پر کئی حملے کیے ہیں اور سرحد پر اپنی افواج کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔
اس سے قبل شام کی وزارت دفاع نے السویدا کے علاقے میں اکثریت میں آباد دروز قبیلے کے عسکریت پسندوں پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے منگل کو طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسی دوران عام شہریوں پر حملوں اور دروز قبیلے کے افراد کی ہلاکتوں کی رپورٹس سامنے آئیں۔
واضح رہے کہ شام میں طویل حکمرانی کے بعد دسمبر میں بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد نئی عبوری حکومت کو خانہ جنگی کے شکار ملک کی تعمیر نو اور بحالی کا چیلنج درپیش ہے۔
دمشق کے قریب واقع جرمانہ کی 20 سالہ ایولین عزام نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کے شوہر رابرٹ کیوان ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ نوبیاہتا جوڑا کچھ عرصہ قبل دمشق کے نواح میں منتقل ہوا تھا لیکن شوہر رابرٹ کیوان کو ہر صبح کام کی غرض سے السویدا جانا پڑتا ہے۔
رابرٹ کیوان السویدا میں جھڑپیں شروع ہو جانے کے وجہ وہیں پھنس گئے تھے۔
ایولین عزام نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر سے فون پر بات کر رہی تھیں جب سکیورٹی فورسز کے اہلکار ان سے پوچھ رہے تھے کہ آیا ان کا تعلق دروز عسکریت پسندوں سے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب میرے شوہر کے دوست نے آواز بلند کی تو مجھے بندوق کے فائر کی آواز سنائی اور اس کے بعد میرے شوہر کو بھی گولی مار دی گئی۔‘
’انہوں نے میرے شوہر کو کولہے میں گولی ماری۔ پھر ایک ایمبولینس انہیں ہسپتال لے گئی، اس کے بعد سے مجھے ان کا کچھ علم نہیں ہے۔‘
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ شام کے جنوبی صوبے میں دروز قبیلے اور سنی بدو قبیلے کے درمیان بھی چھڑپیں جاری رہیں اور ایک دوسرے کے افراد کو قتل اور اغواء کیے جانے کے واقعات بھی پیش آئے۔

اس کے بعد حالات کو معمول پر لانے کے لیے سرکاری فورسز نے کارروائیوں کا آغاز کیا۔
حکومت کے ساتھ وابستہ جنگجوؤں کی کچھ ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں وہ دروز قبیلے کے شیوخ کی مونچھیں مونڈ رہے ہیں اور ان کی تصاویر اور جھنڈے اتار رہے ہیں۔
کچھ دیگر ویڈیوز میں دروز قبیلے کے عسکریت پسند سرکاری فورسز کے اہلکاروں کو پیٹ رہے ہیں اور ان کی لاشوں کے ساتھ تصاویر بنوا رہے ہیں۔
بدھ کو اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے بدھ کو کہا کہ ’اسرائیلی فوج شامی سرکاری افواج کے خلاف اس وقت تک حملے جاری رکھے گی جب تک وہ اس علاقے سے نکل نہیں جاتیں۔ اگر ہمارا پیغام سمجھا نہ گیا تو ہم اپنے حملوں میں اضافہ کر دیں گے۔‘