Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خودکشی و خودسوزی

خلیل احمد نینی تال والا

دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کرنے کا رواج جاپان میں پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کوریا اور پھر دوسرے ممالک ہیں مگر یہ بات طے ہے کہ دنیا کا کوئی ملک خودکشی کرنیوالوں سے پاک نہیں ۔جاپان میں خودکشی کی عجیب و غریب داستانیں رقم ہیں اور سب سے زیادہ خودکشیاں ذاتی ناکامی کی وجہ سے کی جاتی تھیں اور آج بھی ہوتی رہتی ہیں ۔مثلاً پہلے جاپان میں فلم اسٹار جب بوڑھی ہونے لگتی تھی یا اس پر کسی جونیئر فلم اسٹار کو ترجیح دی جاتی تھی تو وہ دل برداشتہ ہوکر خودکشی کرلیتی تھی ۔اس کو برُا نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اس کو"عزت کی موتـ"سمجھا جاتا تھا ۔بڑے بڑے فلم ساز اوپر تلے اپنی فلموں کے فلاپ ہوجانے کے باعث خودکشی کر لیتے تھے۔اسکے علاوہ بھی خودکشی کے بہت اسباب ہوتے تھے اور اس کا تعلق عمر سے بھی ہوتا تھا ۔مثلاً بڑے بڑے صنعتکار جب خسارے سے دوچار ہوتے تھے تو انا کے ہاتھوں موت کو گلے لگا لیتے تھے۔ اسی طرح فوج میں اگر کوئی بڑا عہدیدار کوئی بہت بڑی غلطی کرلیتا تھا تووہ اپنی شرمندگی کا سامنا کرنے کے بجائے موت کو گلے لگا لینابہتر سمجھتا تھا یا پھر کوئی فوجی کسی مشن میں ناکام ہوجاتا تھا تو وہ واپس آنے کے بجائے خودکشی کرلیتا تھا ۔ دوسری جنگ عظیم میںجب جاپان نے ہتھیار ڈالے تو سیکڑوں فوجیوں نے ہتھیار ڈالنے پر موت کو ترجیح دی اور خود کو ختم کرلیا کیونکہ جاپانی سب سے زیادہ حساس ہوتے ہیں ۔دنیا بھر میںبھوک و افلاس سے مرنے والوں کی تعداد علاوہ ایشیا کے نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ تمام ترقی پذیر ممالک مہنگائی اور بیروزگاری الائونس دیتے ہیں اسلئے یورپ ،امریکہ ،آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں غربت سے مجبور ہوکر کوئی خودکشی نہیں کرتا۔ کسی شخص کے اقدام خودکشی پر پولیس اس کوبچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور اگر کوئی بچ جائے تو اس کیخلاف پرچہ درج نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کا حل نکالا جاتا ہے تاکہ آئندہ وہ اپنی جان اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈال سکے۔ اس کی اخلاقی اور قانونی مددکی جاتی ہے ۔ نوجوانوں کے احساسات سے کوئی کھیلے تووہ برداشت نہیں کرتے اور فوراً جذباتی ہوکر خودکشی کربیٹھتے ہیں ۔امتحانات میں ناکام طالب علم بھی اپنے ساتھیوں کے سامنے شرمندگی اٹھانے پر خودکشی کو فوقیت دیتا ہے ۔ماں باپ کی طرف سے نظر انداز کئے جانے والے بچے بھی احساس کمتری میں مبتلاہوکر خودکشی کرلیتے ہیں۔ اس کیلئے بھی یورپ میں بڑے سخت قوانین ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے مذہب میں خودکشی حرام ہے اور خودکشی ہی نہیں اسلام میں مایوسی کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے جو درحقیت خودکشی کی جانب پہلا قدم ہے لہذا مسلمان خودکشی کرنے میں سب سے آخر میں آمادہ ہوتا ہے ۔ہمارے ملک میں تو خودکشی کی وجہ وہ نہیں جس کا ذکر یورپ ،امریکہ ،جاپان اور کوریا کے حوالے سے کیا گیا بلکہ ہمارے ملک میں لوگ بھوک افلاس ،غربت ،بیماری ،پولیس یا حالات کے تشدد کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ خصوصاً بے روزگاری تو اس میں سرفہرست ہے۔ اکا دُکا لوگ محبت یا امتحان میںناکامی کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں ۔حکومت نے آج تک صرف ٹیکس وصول کرنے پر اپنی توانائی خرچ کی ہے مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ محض ٹیکس وصول کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اس رقم کو احسن طریقے سے خرچ کرنا بھی اس کا اولین فرض ہے ۔اسلام نے پیدا ہونیوالے بچے کی بیت المال سے پرورش کا ذمہ لیا ۔اگر وہ غریب ہے ڈھائی فیصد زکوٰۃ امیروں سے وصول کرنے کا بھی اسی طریقہ سے طے کیا آج ہم ڈھائی فیصد کے علاوہ نجانے کتنے بے حساب ٹیکس اداکرتے ہیں مگر یہ خطیر رقم حکمرانوں کے شاہی اخراجات پر صرف ہوتی ہیں ۔غریبوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔ذرا اندازہ کیجئے کہ زکوٰۃ گزاراور ٹیکس گزار پر کتنا خرچ ہوتا ہے۔ زکوٰۃکیلئے اربوں روپے کی کٹوتی کرنے کے بعد مساکین ،یتیموں اور غربیوں پر فی خاندان صرف 300روپے سے 750روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں ۔کیا ہم نے آج تک کسی بھی بے روزگار نوجوان کو بیروزگاری الائونس دیا؟ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ یورپ اور امریکہ میں تو پاکستانی اگر بے روزگار ہوں تو وہ ان کی کفالت کرتے ہیں ۔رہائش کے علاوہ بیروگاری الائونس دیتے ہیں مگر پاکستان میں پاکستانی نوجوانوں کو کیا دیا جاتا ہے؟ اسلام نے زکوٰۃکی رقم پر سب سے پہلا حق غربیوں اور محتاجوں کا تسلیم کیا ۔ہر گھر میں چولھا جلانا اسلامی فلاحی حکومت کا فرض ہے ۔اگر حکومت اپنا فرض پورا کرے تو نوجوانوں میں مایوسی حد درجہ کم ہوجائے ،غربت دم توڑ دے اور خودکشی کے اسباب پیدا نہ ہوں ۔جان تو ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے مگر جب بات جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے میں بھی ناکامی تک جا پہنچے تو اگلا راستہ موت ہی کا نظر آتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں خودکشی کیلئے خود سوزی کا بڑھتا ہوا رُجحان جو سامنے آیا ہے وہ نہایت تشویشناک ہے۔اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے تمام طریقوں میں سے زیادہ اذیت ناک جو طریقہ کار ہے وہ خودسوزی کا ہے تو پھر لوگ جان دینے کیلئے یہی طریقہ کیوں استعمال کررہے ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ماہرین نفسیات کو توجہ دینی چاہیے مگر حالات اور واقعات بتاتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود اس میں ملوث ہیں ۔آج صورتحال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ،باصلاحیت اور ملک و قوم کیلئے اپنے اور اپنے متعلقین کیلئے کچھ کر ڈالنے کے عزم سے سرشار نوجوان مارے مارے پھرتے ہیں اور ان کو کلرکا کام بھی نہیں ملتا ۔باربار کی ناکامیاں ان کا دل توڑدیتی ہیں ۔پھر کوئی ڈاکو جنم لیتا ہے ،کوئی تخریب کار پیدا ہوتا ہے ،کسی اسمگلر کا اضافہ ہوتاہے یاپھر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلینے جیسا سانحہ رونما ہوتاہے ۔معاشرتی ناہمواری ،عدم مساوات ،زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کے مناسب مواقع کا نہ ہونا ،اگر ان حالات کو پیش نظر رکھ کر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں میں خودکشی کا رجحان بہت کم نظر آئے گا اور اس کا سبب یہی ہے کہ مسلمانوں کا دین اسلام خودکشی کو حرام قرار دیتا ہے تاہم حالیہ دنوں میں اپنے ہی ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاک کردینے کے واقعات میںاضافہ ہورہا ہے جو تشویشناک بات ہے۔حکومت کو چاہئے کہ اس خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کیلئے بیروزگاری الائونس کی ادائیگی کا فوراًاہتمام کرے اور نوجوانوں کو پولیس کے تشدد اور غیر انسانی سلوک سے محفوظ رکھنے کے اقدامات اٹھائے ۔ یہی وہ سب سے بڑی وجوہ ہیں جو ان نوجوانوں کو خودکشی اور خوسوزی پر مجبور کرتی ہیں ۔کپڑے اور مکان کے بغیر تو انسان زندہ رہ سکتا ہے مگر روٹی کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں ۔اسی طرح انسان کو اپنی عزت نفس سب سے زیادہ عزیر ہوتی ہے خصوصاً نوجوانوں کو ۔اور بات عزت کی آجائے تو عزت داروںکیلئے عزت کے بدلے موت کا سودا بہت سستا سودا ہوتا ہے۔

******

شیئر:

متعلقہ خبریں