Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گائیکی کے دکنی شہنشاہ نظام علیخان کیساتھ یادگار شبِ غزل

ڈاکٹر سید علی محمود نے زمامِ بزم سنبھالی ، وسیع و عریض ہال بھی تنگ دامنی پر شکوہ کناں نظر آیا 
 امین انصاری۔جدہ
بزم مہوشاں میں کسی مہ رُخ نے سوال داغا کہ غزل کیا ہے،بزم کی اولیں رو سے ایک مہ جبیں اپنا آنچل سنوارتے ہوئے کھڑی ہوئی اور کہنے لگی لب و رخسار کی حدت، چشمِ آہو کی رنگت،آواز کی کھنک اور گیسوﺅں کی مہک کو لفظوں میں ڈھالنے کا نام غزل ہے، بزم کی ایک جانب سے ایک اور نسوانی صدابلند ہوئی جس نے کہا کہ زندگی کے نشیب و فراز ، ٹوٹے ہوئے تاروں کے ساز اور دنیا کے بے اعتنائی کے انداز کو رقم کرنے کا نام غزل ہے، اسی اثنا میں بزم کے ایک اور کونے سے آواز ابھری کہ پرخار راستوں پر چلنے، پچھتاکر ہاتھ ملنے، سینے میں ارمانوں کے پلنے، کسی کی یادوں میں جلنے اور گرگر کر سنبھلنے کا نام غزل ہے، اسی آن بزم کے آخری گوشے سے اک جہاں دیدہ صدافضا میں یوں مترشح ہوئی کہ غم سے نڈھال ہوکر لبوں پر آنے والی آہ، درد کے باعث ابھرنے وا لی کراہ، جبر و استبداد سے نباہ، کسی ناپسندیدہ پناہ، کسی بے منزل راہ، کسی موہوم وجود کی چاہ کو الفاظ میں سمو کر بے توقیر کرنے کا نام غزل ہے۔
یہی سوال شمع کے پروانوں سے، ریختہ کے دیوانوں سے ، دور حاضر کے نوجوانوں سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ تصویر کائنات کے رنگوںکے سحر کو لفظوں میں ڈھالنے کی منظوم کوشش غزل کہلاتی ہے۔"غزل "کا لفظ سنتے ہی کانوں میں ایک پرکیف اور مدھر صدا کسمسانے لگتی ہے ۔غزل جو محبوب سے گفتگو کاپرتو ہے توتنہائیوں ، اداسیوں اور بے چینیوں کی ترجمانی بھی ہے ۔ غزل اگر حالات حاضرہ کی عکاسی کرتی ہے تو یہ انقلاب کا وہ ہتھیاربھی ہے جس کی گرج سے تخت و تاج دہل جا تے ہیں۔ غزل اگر دو دلوںکے ایک دوسرے سے ہم کلام ہونے کا نام ہے تو تھکے ماندے ذہنوں میں بیدار ہونے والی ترنگ کا نام بھی غزل ہے۔جب ان خوبیوں سے معمور غزل کو گائیکی کی دنیا کے جانے مانے استاد صاحبزادہ نظام علی خان کی آواز مل جائے تو یہ سماعتوں پر یوں دستک دیتی ہے:
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے 
چلے بھی آو کے گلشن کا کاروبار چلے 
جدہ کی حیدرآبادی کمیونٹی نے شہر سے دور ایک استراحہ میں فائن آرٹ اکیڈمی کے ہمراہ " جشن نظام علیخان "کے نام سے محفل آراستہ کی ۔ ڈاکٹر سید علی محمود نے زمامِ بزم سنبھالی ۔نامور احباب کے قافلے جوق در جوق شہر سے استراحہ کی طرف روانہ ہوئے ، انجام یہ ہوا کہ وسیع و عریض ہال بھی تنگ دامنی پر شکوہ کناں نظر آیا ۔لوگ اپنی فیملیز کے ہمراہ پہنچے تو انہیں محفل کے سرگرم کارکن محمد علیم نے عشائیے کی راہ دکھائی جو حیدرآبادی بریانی اور قورمہ و میٹھے پر مبنی تھا ۔اسٹیج پرکشش بینر اور لائٹنگ کی شکل میں غزل سرائی کی دعوت دے رہا تھا کہ اچانک شیروانی اور سروں پر لال رنگ کی رومی ٹوپی پہنے معاونین و منتظمین کی ٹولی ہال میں براجمان ہوگئی ۔حاضرین نے کھڑے ہوکر تالیوں کی گونج میں استقبال کیا ۔یکا یک ایک خوبصورت شخصیت اپنے چہرے پر مردانہ وجاہت اور معنی خیز مسکان لئے یوں گویا ہوئی 
" خواتین و حضرات! میں آپ کامیزبانِ امروز ”مرزا قدرت نواز بیگ“ جشنِ نظام علی میں آپ کا استقبال کرتا ہوں۔ یہ سن کر ہال میں سناٹا چھاگیا ۔قدر ت نواز نے سامعین کی سماعتوں کو خوبصورت اشعار دیئے اور پھر پروگرام کی تفصیل پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے انہوں نے مقررین کو دعوت خطاب دی 
٭٭حیدرآباد سے آئے ہوئے سینیئر کانگریسی قائد خلیق الرحمن نے کہا کہ نظام علی خان کے گلے میں آواز کا جادو ہے اور یہ جادو سرچڑھ کر بولتاہے۔ وہ لوگوں کو اپنا گرویدہ کرلیتے ہیں ۔ انہوں نے نظام علی کو حیدرآبادی گائیکی کی پہچان قرار دیا۔
یوسف الدین امجد نے کہا کہ نظام علی خان نعت طیبہ پڑھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ موجودہ دورکے بہترین غزل گائیک بھی ہیں۔
اعجاز احمد خان نے کہا کہ نظام علی خان محبت بھرا دل رکھتے ہیں اور لوگوں میں خوشیاں باٹنے کا فن جانتے ہیں ۔وہ اپنی آواز سے لوگوں کے دلوں پر راج بھی کرتے ہیں ۔
ڈاکٹرسید علی محمود نے شرکائے محفل کا جشن نظام علی میں شرکت پر استقبال کرتے ہوئے کہا کہ حیدرآبادی تہذیب کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس خطے کے لوگ زندہ دل ، محبت اور اخوت کے پیامبر، فنکاروں کے قدر داں، شعر و ادب کے دلدادہ ، غزل سرائی اور غزل گائیکی کے متوالے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے نظام علی خان کو غزل گائیکی کی دنیا کا دکنی شہنشاہ کہا ۔انہیں دنیا میں جو عزت اور شہرت ملی وہ نعت طیبہ کی محافل کے انعقادسے ملی ۔انہوں نے نظام علی کو غزل کا چندِ آفتاب و چندِ مہتاب قرار دیا اور کہا کہ اب یہ بہت جلد حیدرآباد میں طلوع ہوں گے اور اپنی ضو فشانی سے دنیائے فن کو منور کر دیں گے۔انہوں نے کہا کہ اہل حیدرآبادکونظام علی جیسے گائیکی کے گوہر نایاب کی حفاظت اور قدر کرنے کی تلقین کی ۔ 
شمیم کوثر نے کہا کہ نظام علی آدھی سے زیادہ دنیا میں اپنے فن گائیکی کا جادو جگاکر اپنی پہچان چھوڑ آئے ہیں ۔ اب یہ وطن عزیز جاکر یقینا اپنے آپ کو ، اپنے وجود کو ، اپنے فن کو ہمالہ کی بلندیوں پر پہنچائیں گے ۔آج انہیں " دکنی شہنشاہ غزل" کے نام سے پکارا جارہا ہے۔ مجھے حقیقی خوشی تب ہوگی جب لوگ انہیں ”نعت خوانی “کا ”دکنی شہنشاہ “ کہہ کر پکاریں گے ۔
تقاریر کے بعد شال پوشی ، گلپوشی کا سلسلہ چل پڑا۔ تمام مقررین اور میر عارف علی ، محمود مصری، سید خواجہ وقار الدین ، منور خان ، محمد اسحاق ، سید افضل ، صلاح الدین سیٹھ ، ندیم عبدالباسط ، عبید الرحمن، محمد حبیب ، وسیم مقدم ، ذاکر قادری، محمد عبدالقیوم ، ادریس احمد فریدی ، میر محمود علی ، عماد صدیقی ، عبداللہ افضل،عرفان قریشی اور دیگر احباب نے یکے بعد دیگرے شال پوشی اور گل پوشی کی اور گلدستہ نظام علی خان کو پیش کرکے اپنی دوستی اور محبت کا ثبوت دیا ۔ 
نظام علی خان کی غزل سرائی سے قبل جدہ کے سنگرز عماد الدین امجد ، وسیم مقدم ، افروز ، یونس بیگ ، فرید علی خان ، امجد اور عبدالرافع نے اپنی خوبصورت آواز میں الوداعی گانے گاکر اپنے محبوب غزل سنگر نظام علی کو منظوم تہنیت پیش کی ۔ 
اب ہال میں ہر شخص نظا م علی کو سننے کیلئے اپنی سماعتوں کومرکوز کرنے کی کوشش میں تھا کہ اچانک ایک ایسی آواز سماعتوں سے ٹکرائی جو غزل کی رنگینوں، شوخی اور چنچل صفات کی تعریف بیان کررہی تھی، لوگوں نے جب پلٹ کر دیکھا تو یہ جدہ کے معروف ناظم عامر صدیقی تھے ۔تالیوں نے طبلے کا لطف دیا اور یوں عامر کی پذیرائی ہوئی ۔ اس کے ساتھ اسٹیج آلات موسیقی سے سجنے لگاتو مائیک ادریس احمد فریدی نے سنبھال لیا اور یوں گویا ہوئے کہ:
 " میں تو غز ل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
 سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھوگئے 
انہوں نے نظام علی اور غزل گائیکی کے حوالے سے چند کلمات ادا کئے اور پھر عامر صدیقی ، قدرت نواز نے تالیوں کی گونج میں نظام علی خان کو اسٹیج پرآنے کی دعوت دی ۔ ساتھ ہی تبلے پر سنگت دینے کیلئے واجدعلی اور ڈھولک پر سنگت دینے کیلئے انکے صاحبزادے محمد واجد علی کو اسٹیج پر دعوت دی گئی ۔ دونوں باپ ، بیٹے بہترین تبلہ اور ڈھولک بجاکر محفل کو نہ صرف گرما دیا بلکہ بار بار داد تحسین حاصل کی تبھی نظام علی خان کی ہارمونیم چہک اٹھی اور وہ یوں غزل سرا ہوئے ۔ 
عیش و راحت سے ملو ،موج وساحل سے ملو
سب سے مل آﺅ تو اک بار میرے دل سے ملو
اب رات تھی ، مائیک تھا ، خوش ذوق سامعین تھے اور نظام علی تھے ۔یوں طلوع آفتاب سے قبل دکن کا یہ مہتاب اپنے فن کو لوگوں کے دل و دماغ میں چھوڑ کر الوداع کہہ گیا ۔ ندیم عبدالباسط نے حاضرین محفل سے اظہار تشکر کرتے ہوئے محفل کی برخاستگی کا اعلان کیا گیا۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: