Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صبح سے شام تک صرف خوراک کی تلاش، غزہ کے ایک خاندان کی زندگی

غزہ کا یہ خاندان خوراک کے لیے دن بھر انتظار کرتا رہتا ہے۔ فوٹو: اے پی
غزہ کی پٹی میں رہنے والے میاں بیوی عبیر اور فادی صوب روزانہ ایک ہی سوال کے ساتھ جاگتے ہیں۔ اپنے ٹینٹ میں صبح اُٹھتے ساتھ ہی وہ یہ سوچتے ہیں کہ اپنے لیے اور اپنے چھ بچوں کے لیے خوراک کہاں تلاش کریں۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک فیچر رپورٹ کے مطابق اس خاندان کے پاس تین آپشن ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ چیریٹی کچن کھلا ہو اور پتلی سی دال کا ایک پیالہ مل جائے۔ یا قریب سے گزرنے والے امدادی ٹرکوں کے قافلے کے پیچھے بھاگتے ہجوم میں شامل ہو کر آٹے کا تھیلا حاصل کر لیا جائے۔ اور آخری آپشن بھیک مانگنا بچ جاتا ہے۔
اگر یہ سب کام نہ آئیں، تو وہ بھوکے رہ جاتے ہیں۔ اور ان دنوں اب یہ زیادہ ہو رہا ہے، کیونکہ بھوک ان کی توانائی، طاقت اور امید کو ختم کر دیتی ہے۔
یہ خاندان متعدد بار بے گھر ہونے کے بعد غزہ شہر کے مغرب میں سمندر کنارے پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر ہے۔ یہ علاقہ جنگ سے تباہ حال ہے اور صوب خاندان جیسے دیگر کئی ہزاروں افراد یہاں بے سروسامانی کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔
انسانی امداد کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے گزشتہ 22 ماہ کی جنگ کے دوران بھوک میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین خوراک نے رواں ہفتے کے آغاز میں خبردار کیا تھا کہ ’اس وقت غزہ میں قحط کی بدترین صورت حال ہے۔‘
اسرائیل نے مارچ سے اب تک ڈھائی ماہ کے لیے خوراک اور دیگر سامان کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ اسرائیل کے مطابق اس کا مقصد حماس پر 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے یرغمال بنائے گئے درجنوں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھانا ہے۔

متعدد بار بے گھر ہونے کے بعد یہ خاندان سمندر کنارے پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر ہے۔ فوٹو: اے پی

اگرچہ غزہ کے اندر امداد کا پہنچنا مئی میں دوبارہ شروع ہوا، لیکن امدادی تنظیموں کے مطابق یہ اس کا ایک حصہ ہے جس کی ضرورت ہے۔
امن و امان کی خراب صورتحال نے خوراک کی محفوظ طریقے سے فراہمی کو بھی تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ زیادہ تر جو امداد ملتی ہے وہ ذخیرہ اندوزی کی نذر ہو جاتی ہے یا منڈیوں میں مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔

صوب خاندان کی زندگی کے ایک دن پر نظر

صبح میں سمندری پانی سے غسل

یہ خاندان صبح اپنے خیمے میں جاگتا ہے، جس کے بارے میں 30 سالہ فادی صوب کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں ناقابل برداشت حد تک تپش ہوتی ہے۔

سمندر کے کھارے پانی سے بچوں کو نہلانا ایک چیلنج ہے۔ فوٹو: اے پی

تازہ پانی لانا مشکل ہے تو فادی کی اہلیہ 29 سالہ عبیر سمندر سے پانی لاتی ہیں۔
ایک ایک کر کے بچوں کو دھات کے بیسن میں کھڑے ہو کر نہانا پڑتا ہے، اس دوران جب ان کی ماں ان کے سروں پر کھارا پانی ڈالتی ہیں تو 9 ماہ کی ہالا روتی ہے کیونکہ یہ اس کی آنکھوں میں جلن کرتا ہے۔ دوسرے بچے زیادہ چڑچڑے ہوتے جا رہے ہیں۔
اس کے بعد عبیر ٹینٹ کے فرش پر ڈالی گئی دری جھاڑتی ہیں جس پر ریت ہے۔ کھانے کو کچھ نہیں تو وہ اپنے خاندان کے ناشتے کے لیے مانگتی ہیں، کبھی پڑوسی تو کبھی قریب سے گزرنے والی اُن کو پتلی سی دال دیتے ہیں۔ اور کبھی اُن کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔
عبیر اپنی نو ماہ کی بیٹی ہالا کو فیڈر میں پانی ڈال کر دیتی ہے۔ کسی دن قسمت جاگ اُٹھے تو دال کو گرائنڈ کر کے پاؤڈر کی شکل میں فیڈر کے پانی میں ملا دیتی ہے۔
عبیر کہتی ہیں کہ ’ایک دن 100 دنوں جتنا طویل لگتا ہے کیونکہ شدید تپش، بھوک اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔‘

عبیر اپنی نو ماہ کی بیٹی ہالا کو فیڈر میں پانی ڈال کر دیتی ہے۔ فوٹو: اے پی

سوپ کچھ کا پھیرا

فادی صوب قریبی سوپ کچن کا پھیرا لگاتے ہیں تاکہ کچھ کھانے کو مل سکے۔ کبھی اُن کے بچے بھی ساتھ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’لیکن وہاں کم ہی کچھ کھانے کو ملتا ہے۔‘ یہ امدادی کچن ہفتے میں بمشکل ایک دن ہی کھلتا ہے اور ہر بار بڑی تعداد میں قطاروں میں کھڑے لوگوں کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔
فادی صوب کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ تر پورا دن قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور بالآخر اپنے خاندان کے لیے کچھ حاصل کیے بغیر خالی ہاتھ لوٹتے ہیں، ’اور بچے کچھ کھائے بغیر بھوکے سو جاتے ہیں۔‘

 

شیئر: