Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

این آر او

محمد مبشر انوار
اس وقت ملکی سیاست ایک طرف عدالتوں کا امتحان بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف زبان زد عام این آر او سے متعلق بحث چھڑی ہوئی ہے۔ این آر او ہو گا ،نہیں ہو گا،ہونا چاہئے ،نہیںہونا چاہئے، ہونا چاہئے تو کیوں اور اگر نہیں ہونا چاہئے تو کیوں؟شریف خاندان مسلسل اور ہمیشہ کی طرح عدالتوں اورمعزز جج صاحبان کی تضحیک کا مرتکب ہو رہا ہے اور معزز جج صاحبان ہیں کہ صبر و تحمل کا پیکر بنے ہوئے،اس سارے کھیل کو دیکھ رہے ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک ایسے دور سے گزر رہا ہے ،جو اس ملک کی واضح سمت کا تعین کرے گا کہ اس ملک اور اس کے عوام کیا چاہتے ہیںاور اس ملک کو مستقبل میں کن اصولوں اور قواعد و ضوابط کے مطابق چلنا ہے۔دور حاضر اور تاریخ میں اُن ملکوں اور قوموں کی عزت ہے جو اپنے قومی مفادات کے حصول میں مخلص رہے اور کسی بھی ایسے ملک یا قوم کی عزت و حیثیت نہیں کی جاتی جو قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر قربان کرتے ہوں۔ یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی ملک کو دبانے کی خاطر اس کے رہنماؤں کو خرید لیا جائے۔ میر جعفر اور میر صادق جیسے گندے کردار ہر دور میں میسر رہے ہیں۔ایسے کرداروں کے سد باب کی خاطر ہی ریاستیں ادارے تشکیل دیتی ہیں اور ان اداروں کو اتنے اختیارات دئیے جاتے ہیں کہ کسی بھی وطن فروشوں کو سخت ترین سزا دیں تا کہ باقیوں کے لئے عبرت ہو۔
ملکی سلامتی کے ادارے اس وقت آئین و قانون کے ساتھ کھڑے ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے پرہیز کرتے ہوئے حقیقتاً چاہتے ہیں کہ اختیارات کا معاملہ واقعتانہ صرف مستقلاًحل ہو جائے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ عوام ایسی حقیقی قیادت کو منتخب کریں جو ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہو نہ کہ اپنے،اپنی نسلوں یا اپنی تجوریوں کے ساتھ۔ بظاہر اس مؤقف کی تائید نہیں کی جا سکتی کہ ملکی سلامتی کے اداروں کا یہ دائرہ کار ہی نہیں کہ وہ ملکی سیاست میں بالواسطہ یا بلاواسطہ دخل اندازی کریں مگر مجبوری یہ ہے کہ وہ بھی اسی وطن کے شہری ہیںاور موجودہ نظام کو بھی بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح اور کیسے رائے دہندگان کی رائے کو چوری کیا جاتا رہا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں بظاہر نہ صرف ادارے کی قیادت بلکہ پورے ادارے نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ ان کی مداخلت سے معاملات سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے ہیں لہذا بہتر ہے کہ مروجہ نظام کو ہی اتنی طاقت فراہم کی جائے کہ ریاست کے ادارے خود سے اس نظام کو صحیح سمت میں بے خوف چلاناشروع کردیں۔ حیرت تو اس امر پر ہوتی ہے کہ ایک طرف پاکستان کی اشرافیہ دہائیاں دیتی ہے کہ مقتدرہ حلقے انہیں کام نہیں کرنے دیتے اور دوسری طرف انہی مقتدرہ حلقوں سے این آر او کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب مقتدرہ حلقے پورے عزم کے ساتھ آئین و قانون کے ساتھ کھڑے ہونے کا اظہار کر رہے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ اشرافیہ (اگر بے گناہ ہے تو) مستند ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہو کر خود کو بری کروائے مگر ایسی کسی کاوش کی بجائے اشرافیہ مقتدر حلقوں کے علاوہ در در این آر او کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ اشرافیہ کا طرز عمل ایک طرف ان کی ذاتی سبکی کا باعث بن رہا ہے تو دوسری طرف ریاست پاکستان بھی اقوام عالم میں تماشہ بن رہی ہے کہ کیسے اسکے حکمران اپنے جرائم کی معافیاں اور ضمانتیں اپنے غیر ملکی آقاؤں سے خیرات میں مانگ رہے ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ غیر ملکی آقاؤں کے غلام نہ صرف پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنے سے قاصر ہیں بلکہ اقوام عالم میں اس کی بے توقیری کا سبب بن رہے ہیں،یہ حقیقت اس وقت کھلے بندوں دیکھی جا سکتی ہیں ۔مقتدرہ حلقوں کے اس احساس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نکل رہا ہے ماسوائے شریف خاندان کے مقدمات ،جو ملزمان کے مطابق تعصب پر مبنی ہے،کہ ان کیخلاف کارروائی میں عجلت برتی جا رہی ہے۔ میرے ذاتی خیال میں ایسی کوئی بات نہیں مگر ملزمان کو بھی حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں۔میری دانست میں اتنے ہائی پروفائل مقدمے میں ،جس پر ساری دنیا کی نظریں ہیں اور ساری دنیا یہ چاہتی ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ جلد سے جلد آئے،تیز سماعت کسی بھی طرح ملزمان کو ان کے حق سے محروم نہیں کر رہی ماسوائے اس امر کے کہ ملزمان ماضی کی طرح کوئی ایسا سبب بنانے میں ناکام ہو رہے ہیں ،جو ان کیلئے محفوظ راستہ فراہم کر سکے اور یہی وہ وجہ ہے جس پر وہ بری طرح سے تلملائے ہوئے ہیں۔ کرپشن میں لتھڑے ہوئے خود ساختہ رہنماؤں کی حالت اس وقت دیدنی ہے۔
اس پس منظر میں جب ریاست پاکستان کے ادارے ایک نئے جذبے کے تحت بروئے کار آ رہے ہیں اور سیاستدانوں کے تمام تر منفی پروپیگنڈے کے باوجود اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے صرف مادر وطن کی خوشحالی و قانون کی بالا دستی کیلئے اپنے فرائض تندہی سے سر انجام دے رہے ہیں۔این آر او بنیادی طور پر ایک ایسا انتظام ہو گا جو ماضی کی تمام تر غلطیوں کو دفن کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کر سکے۔ یہ سوچ بذات خود کہیں بھی پاکستان کا درد نہیں رکھتی بلکہ سیاستدانوں کی خواہش ہے کہ اپنی سب خباثتوں کے باوجود پاکستانی عوام کے سامنے سرخرو ہو سکیںکہ ہم کسی ’’جرم‘‘ میں ملوث نہیں بلکہ ہمارے خلاف انتقامی کارروائی ہوئی۔ اس وقت کسی بھی قسم کا این آر او خودساختہ رہنماؤں کیلئے دو طرفہ مہر تصدیق ثبت کرے گا کہ اولاً وہ کسی بھی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں رہے، دوئم یہ کہ ان کیخلاف یہ ساری کارروائی مقتدرہ حلقوں کی نا فرمانی کے باعث ہوئی۔ اس دو طرفہ مہر تصدیق کے بعد کیا ہوگا کہ یہی رہنما ایک نئے عزم و ولولے کے ساتھ ملک و قوم کو لوٹنے میں مشغول ہوں گے اور عوام کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا،ملک کرپشن کی دلدل میں دھنس جائے گا،قانون نام کی کوئی چیز اس ملک میں باقی نہیں رہے گی،جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے علاوہ معیشت کاارتکاز بھی چند گنے چنے اور منظورِ نظر خاندانوں میں ہو جائے گا۔ عوام کا مقصدِ حیات فقط ان خاندانوں کی غلامی کے علاوہ اور کیا رہ جائے گا،کہ وہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے ان خاندانوں کی آسائشوں کا سامان مہیاکرتے رہیں۔ میری یہ شدید ترین خواہش ہے کہ احتساب کے اس پہئے کو صرف سیاستدانوں تک نہیں رکنا چاہئے بلکہ ہر اس کرپٹ پاکستانی،خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو،کا کڑا احتساب ہونا چاہئے اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت اس سے واپس لی جانی چاہئے۔
ویسے مجھے حیرت ہوتی ہے این آر او کا مطالبہ کرنے والوں سے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ آگ اور پانی کی مفاہمت ہو،چور اور چوکیدار کی مفاہمت ہو،باڑ اور کھیت کی مفاہمت ہو،دن اور رات کی مفاہمت ہو،عزت اور ذلت کیسے ایک ساتھ ممکن ہیں،قانون کی پاسداری اور جرم کی آبیاری کیسے ممکن ہے؟انوکھے لاڈلے کھیلن کو چاند مانگ رہے ہیں جبکہ عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ این آر او کی بجائے اب سزاؤں کا دورچلے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں