Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایسا لگا جیسے پورے مشرقی پاکستان میں آگ لگ گئی

 
 
خالد مسعود،ریاض
(ساتویں قسط)
یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں  1947ء  سے1969ء  تک  ملک میں کبھی آزادا نہ عام انتخاب منعقد نہیں ہوئے تھے۔ کو ئی  نہ کوئی طالع آزما زبردستی آئین کو پامال کرتے ہوئے  ملک کی باگ ڈور سنبھال لیتا ۔ اسکی ایک الگ طویل تاریخ ہے۔یحییٰ خان نے مارشل لاء لگانے کے  بعد  مارچ 1970ء  میں لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت براہ راست عام آزادانہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 5اکتوبر 1970 میں کرانے کا اعلان کر دیا ۔ ووٹر کی عمر کی حد 21 سال مقرر کی اور پھر پورے ملک میں  انتخابی  سرگرمیاں شروع ہو گئیں اور جلسے جلوس کا ایک سلسلہ چل پڑا ۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی ہر شہر میں اکثریت میں موجود تھی۔ ان کا جلسہ خوب زوروں پر ہوتا دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی کے جلسے ہوتے تھے اور یہی واحد جماعت تھی جو اپنے جلسوںمیں نظریہ پاکستان کی وکالت کرتی اور اسلامی نظام کی بات کرتی۔ چند ایک دوسری پارٹیاں بھی تھیں لیکن انھیں اتنی پذیرا ئی حاصل نہیں تھی۔ عوامی لیگ اپنے6پوائنٹس کو اپنے جلسوںمیں موضوع بناتی اور بنگالیوں کی احساس محرومی کو ٹارگٹ کرتے ہوئے 6پوائنٹس کی افادیت بیان کرتی ۔6نکات کی خاص بات یہ تھی کہ دفاع اور خارجی امور مرکز کے پاس ہوں اور بقیہ محکمے مشرقی پاکستان کی حکومت کے پاس ہو ںاور مشرقی پاکستان کی کرنسی بھی الگ ہو۔ مشرقی پاکستان میں چونکہ ہندو کافی تعداد میں تھے عوامی لیگ کو انکی پوری حمایت حاصل تھی اور پھر  ایک الزام یہ بھی تھا کہ پڑوسی ملک کے حساس ادارے کے ایجنٹ بھی عوامی لیگ میں ہوتے تھے۔
جماعت اسلامی چونکہ نظریہ پاکستان کی بات کرتی اور عوام میں یہ بااور کراتی کہ سارے مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے ۔اسلام ہر ایک کے ساتھ انصاف اور مظلوموں کی دادرسی کی بات کرتا ہے یہی بات عوامی لیگ کو ناگوار گزرتی۔ اسلئے وہ جماعت اسلامی  جلسے کے جلوسوں میں  پرتشدد کارروائیاںکرتے اور جماعت کے کارکنوں کو  ڈراتے دھمکاتے۔مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے نظام تعلیم میں اس بات کا خیال ہی نہیں رکھا گیا پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا ۔پاکستان بنانے میں بنگالی آگے آگے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ لاہور کے مسلم لیگ کے جلسے میں پاکستان کی قرارداد بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی لیکن نئی نسل کو کچھ پتہ نہیں تھا کیوں کہ ہمیں اس بارے میں پڑھایا نہیں گیا تھا۔ اسکول اور کالج کے نصاب میں زیادہ تر ہندو مصنفین کی  کتابیںپڑھائی جاتیں ۔اسلئے بنگالی اکثریت کو پتہ نہیں تھا کہ پاکستان کیسے بنا اور پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا۔ حکمرانوں نے حصول پاکستان کے مقاصد بھلاکر  صرف اقتدار میں چمٹے رہنے کو اپنا مقصد بنا لیا تھا۔بنگال سے حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کو اقتدار ملا بھی تو انھیں جلد ہی فارغ کردیا گیا۔سول سروس میں اہم عہدے پر زیادہ تر مغربی پاکستان کے لوگ تعینات تھے ۔یہاں تک کہ فوج میں بھی بھرتی کا معیار  قد 6 فٹ  اور سینہ   36 انچ   رکھا گیا کیونکہ بنگالیوں میں اکثریت  کاسینہ 32انچ اور قد چھوٹے تھے  لہٰذا فوج میں بھی ان کے لئے دروازے تقریباً بند تھے۔ ان سب باتوں نے محرومی اور نا انصافی کو جنم دیا ہندئوں نے بھی نفرت پھیلانے میں بھر پور کردار ادا کیا۔
مشرقی پاکستان میں دوسری نسل اردو بولنے والوں کی تھی جنھیں بہاری کہا جاتا تھا جنکے والدین پاکستان کیلئے اپنی جان ، مال  اور اولاد تک سب کچھ قربان کرکے مشرقی پاکستان میں آبسے تھے ۔جو محب وطن پاکستا نی تھے جبکہ ایسے بنگالی جو  جماعت اسلامی اور مسلم لیگ    سے وابستہ تھے وہ   عوامی لیگ کی پالیسی کی نفی کرتے تھے اور  اس محرومی اور نا انصافی کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنے حقوق مذاکرات کے ذریعے حاصل کرو۔ اس لئے عوامی لیگ اپنی راہ میں انہیں رکاوٹ سمجھتی تھی اور وہ انکی جانی دشمن بن گئی تھی۔ ان ہی تناظر میں الیکشن کی سرگرمی جاری تھی کہ ایک صبح  مشرقی پاکستان کے ساحلی علاقے ہاتھیا  اور بھولا میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے ان دونوں علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔5لاکھ افراد اس طوفان اور سیلاب کی نذر ہوگئے اور لاکھوںافراد  بے گھر۔پورا گاوئں صفحہ ہستی سے مٹ گیا جس کی وجہ سے 5اکتوبر کے انتخاب کو ملتوی کرنا پڑا اور نئی تاریخ 5دسمبر 1970ء رکھی گئی۔
عوامی لیگ نے اس سیلاب کو بھی اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا اور عوام کو یہ بااور کرایا کہ اس آفت میں بھی ہم اکیلے تھے اور مغربی پاکستان نے اپنی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ہمارے  " سنہرا ریشہ " جوٹ کے سارے پیسے مغربی پاکستان پر خرچ ہوتے ہیں بلکہ یہاں تک کہا کہ دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں پر ہمارے سنہرے ریشے کی خوشبو آتی ہے اور ہمارے عوام کو مفلس اور لاچار چھوڑ دیا ہے۔ہم اب یہ استحصال ہرگز برداشت نہیں کرینگے۔
غرض 5دسمبر 1970 کے انتخاب میں عوامی لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں 160  نشست عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان سے ملیں۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو 81 نشست اور باقی 59 نشستیں مختلف جماعتوں کو ملیں  جن میں کونسل مسلم لیگ ، مسلم لیگ ( قیوم )، جمعیت  علمائے اسلام اور جماعت اسلامی  شامل ہیں  جبکہ کچھ نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں ۔ اس طرح کوئی بھی پارٹی ملک کے دونوں حصوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان میں نشست حاصل نہ کرسکی یعنی ایک مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی اور مغربی پاکستان میں پی پی کو اکثریت ملی تاہم نشستوں کے اعتبار سے عوامی لیگ کی قومی اسمبلی کی نشستیں زیادہ تھیں۔  مشرقی پاکستان میں صرف مسلم لیگ کے نورالامین  ہی کامیاب ہو سکے تھے۔
الیکشن کے اس نتیجے میں یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس 3مارچ 1971   کوڈھاکا میں طلب کرلیا ۔بھٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا ۔اس خوف سے کہ اکثریت اسمبلی میں عوامی لیگ کی تھی اسلئے حکومت بنانے کی دعوت شیخ مجیب کو ملنی تھی جو بھٹو کو ہرگز گوارا نہیں تھا۔ بھٹو نے یہ منطق پیش کی کہ عوامی لیگ کو مغربی پاکستان میں کوئی نمائندگی حاصل نہیں ہے لیکن بھٹو یہ بھول گئے کہ خود انکی اپنی پارٹی کی بھی مشرقی پاکستان میں کوئی نمائندگی نہیں  ملی تھی۔ بھٹو نے مغربی پاکستان کے  اسمبلی ارکان کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں کہ کوئی   رکن  بھی اجلاس میں شریک  ہونے گیا تو اسکی ٹانگیں توڑ دی جائینگی اور پھر "  ادھر ہم ادھر تم " کا نعرہ لگا دیا یحییٰ خان نے دبا ئو میں آکر اسمبلی اجلاس ملتوی کر دیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
انہیں دنوں ہم نے درمیانی شب آسمان پر دمدارستارہ نمودار ہوتے دیکھا جو فجر تک رہتا پھر غائب ہو جاتا ۔ایسا کئی دن تک ہوتا رہا جب ہی بڑے بوڑھوںنے کہا تھا اللہ خیر کرے کوئی بڑی آفت آنے والی ہے۔
 ایسا لگا پورے مشرقی پاکستان میں جیسے آگ لگ گئی ہو۔ ہر طرف احتجاج کا  سلسلہ شروع ہو گیا ۔لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔مشرقی پاکستان  کے عوام کو اب یقین ہو گیا کہ مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بنگالیوں کو اقتتدار میں دیکھنا نہیں چاہتی روزانہ مشعل بردار جلوس نکلتے اور انکانعرہ ہوتا " جالو جالو آگن جالو " ( لگا دو لگا دو آگ لگا دو ) آمار دیش تومار دیش بنگلہ دیش بنگلہ دیش۔شیخ مجیب نے سول نافرمانی تحریک کا اعلان کر دیا اور تمام حکومتی اداروں اور نشریاتی اداروں پر عوامی لیگ نے قبضہ کرلیا اور ریڈیو سے بنگلہ دیش کا پرچار شروع کر دیا۔ 23 مارچ 1971 ڈھاکہ پلٹن میدان میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے بنگلہ دیش کا پر چم بھی لہرایا۔اور پھرہر طرف اردو بولنے والے" بہاریوں " کا قتل عام شروع کردیا کیونکہ یہ " بہاری " پاکستان کے ہمدرد سمجھے جاتے تھے۔(باقی آئندہ)
 

شیئر: