Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کی قدیم غاریں، مہم جوئی اور سیاحت کی ایک نئی منزل

ان غاروں تک جانے کے لیے مہم جوئی کا اپنا ہی لطف ہے (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب میں لاکھوں برس کے دوران بننے والے ارضیاتی گڑھوں اور غاروں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ ان سائٹس میں ڈرامائی اور قدرتی بناوٹ کے باعث ریجن کی تاریخ سے متعلق دلچسپ کہانیاں ہیں۔
ان غاروں تک جانے کے لیے مہم جوئی کا اپنا ہی لطف ہے لیکن ان مقامات کی سائنسی قدر بھی ہے اور ان میں ماحولیاتی تنوع بھی پایا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے زیرِ زمین یہ عجوبے، سعودی عرب کے وژن 2030 سے ہم آہنگ ہیں اور سیاحت کی ایک نئی منزل بن کر ابھر رہے ہیں۔
عرب نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں غاروں پر تحقیق کرنے والے حسن الرشیدی نے عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل اس لینڈسکیپ کے بارے میں اپنے تجربات شیئر کیے اور بتایا کہ کیسے بچپن ہی میں ان میں کھوج کا جذبہ بیدار ہو گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’اصل ابتدا 2018 سے ہوئی جب میں نے ان غاروں کی وڈیوز بنائیں اور انھیں اپنے کچھ دوستوں کے لیے اپ لوڈ کیا۔ ان وڈیوز نے عوام میں غاروں سے متعلق دلچپسی اور باہمی گفتگو کا آغاز کر دیا۔‘
’چنانچہ میری حوصلہ افزائی بڑھ گئی خاص طور پر جب مملکت  میں ہر جگہ سے لوگ مجھے سے سوالات پوچھنے لگے کہ ان دیکھی سائٹس کے بارے میں جاننے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے۔

حسن الرشیدی کہتے ہیں کہ’ غاروں کا کھوج لگانے میں خطرات ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

حسن الرشیدی نے بہت سی سائٹس دیکھی ہیں لیکن انھیں مدینہ کے خیبر گورنریٹ میں ابو العویل غار، جو الثمود گاؤں کے مشرق میں واقع ہے، اپنی گہرائی اور قدرتی بناوٹ کی وجہ سے بہت قابلِ ذکر لگا۔ ابو العویل مملکت میں دریافت کی جانے والی اب تک کا سب سے طویل غار ہے جو پانچ کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے اور اس کا مطالعہ تا حال جاری ہے۔
الرشیدی کہتے ہیں کہ غاروں میں جنگلی حیات اکثر نظر آتی ہے اور ’ہم نے لومڑیاں، لگڑ بھگے، اور بھیڑیے تک دیکھے ہیں جو دن کے وقت ان غاروں کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں اور رات کو شکار کی تلاش میں نکلتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’غاروں پر تحقیق کے لیے محتاط تیاری ضروری ہے۔ فاصلوں کی پیمائش کے جدید آلات، رسیاں اور پھسلن والے مقامات کے لیے ضروری سپورٹ سے لے کر خوراک، پانی، فرسٹ ایڈ کِٹ، مضبوط جوتے، ہیلمٹ اور فالتو بیٹریوں کے ساتھ روشنی کا انتظام بہت ضرری ہے۔‘

ابو العویل  سب سے طویل غار ہے جو پانچ کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے (فوٹو:عرب نیوز)

وہ کہتے ہیں کہ’ غاروں کا کھوج لگانے میں خطرات پائے جاتے ہیں جن میں غاروں کا ڈھہ جانا شامل ہے۔ اس سے بچاؤ کا طریقہ ہے کہ غیر مستحکم زونز سے دور رہا جائے اور اگر خطرہ محسوس ہو تو فوراً اس جگہ کو چھوڑ دیا جائے۔‘
مملکت میں کچھ غاروں تک عوامی تحفظ کی خاطر رسائی کی اجازت نہیں یا انھیں آثارِ قدیمہ کے نقطۂ نظر سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔
ان غاروں کے معاشی اور ثقافتی امکانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے الرشیدی کا کہنا تھا کہ یہ غار ’ایک کم یاب ارضیاتی، سیاحتی اور ماحولیاتی خزانہ ہیں جسے ہر حال میں محفوظ کیا جانا چاہیے۔‘

سعودی محقق کا کہنا ہے غاروں میں جنگلی حیات اکثر نظر آتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

وہ کہتے ہیں کہ سعودی وژن 2030 ، جسے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی حمایت حاصل ہے، مملکت کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ غاروں کی سیاحت میں پیشرفت دکھائے اور انھیں ایک پائیدار معاشی وسیلے میں تبدیل کرے۔
غار، سیاحت اور سائنسی تحقیق کے پیشِ نظر، معاشی طور پر فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہاں ملازمتیں فراہم کی جا سکتی ہیں اور تعلیمی مواقع مہیا ہو سکتے ہیں اور یہ سب کچھ مملکت کے شہریوں کے فائدہ کی خاطر قومی ریسرچ کے طور پر بھی کیا جا سکتا ہے۔

زیرِ زمین یہ عجوبے، سعودی عرب کے وژن 2030 سے ہم آہنگ ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

غار دیکھنے والوں میں مقامی اور بین الاقوامی دونوں طرح کے شوقین افراد شامل ہیں۔ ان میں سنسنی کے پیچھے بھاگنے والے بھی ہیں اور سائنس کے دلدادہ بھی جن کو اتفاق سے زمین کی عمر، تہہ در تہہ پتھروں کے مطالعے اور ان میں رہنے والے جانووں کو دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس شعبے کی ترقی کے لیے انفراسٹرکچر کی بہتری اور سخت حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد لازمی کرنا ہوگا۔ ساتھ ساتھ یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یہاں آنے والوں کا تجربہ پُرکشش رہے اور ان قدرتی سائٹس کو محفوظ بنانے کے لیے عوام میں گہری آگاہی پیدا کی جائے۔

 

شیئر: