Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ نے نئی رولنگ جاری کردی

نئی دہلی .... الیکشن کمیشن کے ذریعے کسی سیاستدان یا لیڈر کو داغدار یا مجرم قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ نے ایک نئی رولنگ جاری کردی ہے۔ کسی داغدار سیاستدان کو پارٹی کا سربراہ مقرر کرنے کےخلاف دائر کردہ پٹیشن پر سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ سماعت کا اختیار نہیں رکھتی لہذا اس پٹیشن کو خارج کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کی 3رکنی بنچ میں شامل چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس بی وائی چندرچور اور جسٹس اے ایم خانولکر کی بنچ نے اس پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ایسے معاملے میں کس حد تک جاسکتی ہے اسکا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم کسی مجرم یا داغدار سیاستدان کو کسی پارٹی کا سربراہ بننے سے روکنے کا اختیار رکھتے ہیں؟ پابندی لگانے سے متعلقہ شخص کا حق آزادی متاثر ہوسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ عدالت کے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا کسی مجرم شخص کو اپنے سیاسی خیالات رکھنے سے روکا جاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کی مذکورہ بنچ نے درخواست گزار اشونی ادھیائے کو مشورہ دیا کہ وہ اس سلسلے میں حکومت سے رجوع کرے یا پھر یہ معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا چاہئے۔ درخواست گزار نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ سیاسی ماحول میں کسی سنگین مجرمانہ یا فوجداری معاملے میںمجرم قرار دیئے گئے شخص پر الیکشن لڑنے کی پابندی الیکشن کمیشن نے عائد کردی ہے لیکن اسکے باوجود اسے اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی کوئی سیاسی پارٹی قائم کرسکتا ہے اور پھر اسکا سربراہ بھی بن سکتا ہے۔ درخواست گزار نے اس کےلئے لالو پرساد یادو ، اوم پرکاش چوٹالہ اور ششی کلا کی مثال پیش کی تھی جنہیں فوجداری معاملوں میں مجرم ٹھہرایا جاچکا ہے۔ درخواست گزار نے یہیں تک نہیں بلکہ عدالت میں سریش کلماڈی، اے راجہ، جگن ریڈی، مدھو کوڑے، اشوک چوہان، کنی موئی، ادھیر رنجن ، مختار انصاری، محمد شہاب الدین اور ملائم سنگھ یادو کے ناموں کی بھی فہرست پیش کی جن کو الیکشن کمیشن کے ذریعے سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ انکے خلاف فوجداری کے معاملات درج ہیں لیکن پھر بھی یہ سیاسی پارٹیوں کی سربراہی کرتے ہیں یا ان میں اونچے عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل سدھارتھ لوتھرا اور ساجن پوویا نے کہا کہ سپریم کورٹ کو مفاد عامہ قانون کے 1951ءکے تحت دیکھنا چاہئے جس کے مطابق الیکشن کمیشن کو کسی بھی سیاسی پارٹی کو تسلیم کرنے یا اس کی رجسٹریشن کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ وہ یقینا اس معاملے پر سماعت کیلئے تیار ہے لیکن کسی مجرم کو کسی پارٹی کا سربراہ بنانے کے سلسلے میں وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔

شیئر: