Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علی صالح کے قتل سے یمن متحد

اخبار الشرق الاوسط میں عبدالرحمان راشد کا شائع ہونے والے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے۔
عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
اگر سابق صدر علی عبداللہ صالح کا قتل 5 روز قبل ہوا ہوتا تو انکا خون یمن کی آئینی حکومت کی بحالی کیلئے قائم سعودی عرب کے زیر قیادت عرب اتحاد اور آئینی حکومت کے سر ڈال دیا جاتا۔ انہیں حوثیوں نے اس وقت قتل کیا جب علی صالح نے حوثیوں کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ حوثی علی صالح کوقتل کرکے یمن کے تمام بنیادی گروپوں کے عملی حریف بن گئے۔ حوثی علی صالح کو خو د ساختہ واحد قومی پتے کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ وہ یمنی عوام اور پوری دنیا کے سامنے علی صالح کو رکھ کر اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ علی صالح نے اچانک یمن میں جنگ کا نقشہ تبدیل کردیا۔ انہوں نے ٹی وی پر آکر حوثیوں سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ علی صالح کے قتل سے تبدیلی کا وہ دھارا نہیں رکے گا جس کا وہ آغاز کرچکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا علی صالح حوثیوں کے خلاف محاذ آرائی اور آئینی حکومت کے ساتھ اتحاد کا معرکہ اپنی قبر سے بھی لڑیں گے؟ 
میرا مطلب ہے کہ کیا علی صالح اور انکے اداروں کا اثر و نفوذ برقرار رہیگا۔ کیا علی صالح کے ہمنوا انکے وفادار رہیں گے۔ آیا انکی سوچ ، انکے رجحانات اور انکے معاہدو ں کا احترام کیا جاتا رہیگا۔ علی صالح 4عشروں تک اپنے شہریوں اور اپنے ہمنواﺅں میں غیر معمولی اثر و نفوذ قائم کئے ہوئے تھے۔ آیا انکی موت کے بعد بھی ان سے تعلقداری کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہیگا۔
یہ بات ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ماضی میں علی صالح پر حرف تنسیخ پھیرنے کی جملہ کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ عوامی احتجاج کے باعث استعفے پر مجبور ہونے کے بعد بھی وہ یمنیوں کے رہنما بنے رہے۔ النہدین مسجد میں قتل کی کوشش کے بعد بھی انکی قائدانہ حیثیت باقی رہی۔ اس کوشش کے بعد سب لوگوں کو گمان ہوگیا تھا کہ علی صالح ختم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ریاض کے آرمی اسپتال میں کئی ماہ تک علاج کرایا اور یمن واپس ہوکر ایک بار پھر سب لوگو ںکو حیرت زدہ کردیا کہ وہی صنعاءکے حکمراں ہیں اور وہی سیاسی و عسکری معرکوں کے قائد اعلیٰ ہیں۔ اسی تناظر میں حوثیوں نے انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حوثیوں نے انہیں اس وجہ سے قتل نہیں کیا کہ وہ انکے مخالف ہوگئے تھے بلکہ اس لئے قتل کیا کیونکہ وہ حوثیوں کے سیاسی منصوبے کو زندہ درگور کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔
چند روز قبل علی صالح نے حوثیوں کے ساتھ اتحاد سے دستبرداری کا اعلان کرکے یمن کا نقشہ تبدیل کردیا۔ انہوں نے یمن کی آئینی حکومت کے دشمنوں کی تعداد 50فیصد گھٹا دی۔ مسلح مخالفین کے زیر قبضہ علاقوں کی تعداد میں بھی کمی پیدا کردی۔ علی صالح دشمنوں کے کیمپ سے نکل کر آئینی حکومت کے اتحادیوں کے کیمپ میں شامل ہوگئے۔ یہ تبدیلی حوثیوں کی شکست کا دورانیہ کم کرنے کی ضامن بن گئی تھی۔ اسکی بدولت جنگ کا پلڑا آئینی حکومت کے ہمنواﺅں کے حق میں بھاری ہوگیاتھا تاہم صالح کو قتل کرکے کھیل کے پتے خلط ملط کرنے اور مصالحت کے منصوبے کو معطل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگر ہم یہ بات اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں کہ علی صالح کے قتل کی کوشش مصالحت کو ناکام بنانا ہے تو ہمیں اپنی جملہ توانائیاں مصالحت کو ناکامی سے دوچار ہونے سے بچانے کیلئے مرکوز کرنا ہونگی۔
سابق صدر نے اپنی زندگی کے آخری4ایام کے دوران جو کچھ کیا وہ 6 سالہ خانہ جنگی کے بعد کا انتہائی اہم واقعہ ہے۔ اس سے حوثیوں کو شمالی یمن میں محصور کرنے کی کوششیں مضبوط ہونگی بشرطیکہ علی صالح کی فوج کے قائدین یمن کی آئینی فوج کی صفوں میں شامل ہوکر حوثیوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوجائیں۔
علی صالح نے دارالحکومت صنعاءکو حوثیوں کے ناجائز قبضے سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ 2014ءمیں حوثی صنعاءپر قابض ہوگئے تھے۔ خیال کیا جارہا تھا کہ صنعاءمیں حوثی سب سے طاقتور فریق ہیں اور انہیں وہاں سے نکالنے کی کوئی بھی کوشش تاریخی شہر کی سڑکوں کو خون کے دریا میں تبدیل کردیگی۔ علی صالح کے قتل نے ثابت کردیا کہ حوثی موثر طاقت ہیں۔ شرو ع میں صنعاءعلی صالح کا گڑھ تھا، وہاں کوئی بھی کام علی صالح کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ نیا منظر نامہ فیصلہ کن بھی ہے اور خطرناک بھی۔ صالح کے ہمنوا فوجی صدمے میں ہیں۔ اگر تمام فریق صنعاءکے حوالے سے متفق ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں معاملات تیزی سے طے ہوسکیں گے۔
صنعاءکے باشندوں اور جنرل پیپلز کانگریس کے قائدین نیز علی صالح کی افواج کے کمانڈروں کو اس تبدیلی کی اہمیت کا ادراک کرنا ہوگا جسے علی صالح نے ا پنایا تھا اور جسکی وجہ سے انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں:۔ علی صالح کی موت .....اخباری اداریہ

شیئر: