Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نماز ، سکینت کا عملی اظہار

    ﷲ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان بندوں کے دلوں پر سکینت کا نزول ہوتا ہے ۔ یہ جب دل پر اُترتی ہے تو بندہ کو اطمینان و سکون کی کیفیت نصیب ہوتی ہے ۔اعضاء و جوارح میں ٹھہراؤ اورخشوع پیدا ہوتا ہے ، نیز زبان سے حق و صداقت اور حکمت کی بات نکلتی ہے ۔ یہ قلبی سکینت اس کے اور فحش و باطل کلام کے درمیان حائل ہوجاتی ہے ۔ حضرت عمر ؓکے بارے میں حضرت عبد ﷲ بن عباسؓ  فرماتے ہیں :
    ’’ ہم آپس میں یہ کہا کرتے تھے کہ عمرؓ  کی زبان و دل سے سکینت بولتی ہے۔ ‘‘ ( مدارج السالکین )۔
     یہ ﷲ تعالیٰ کا عطیہ اور انعام ہے جو اس کے کسی نیک بندہ کے قول و فعل کی درستگی اور اصابت رائے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔
    قرآن پاک میں جہاں نزولِ سکینت کا ذکر آیا اس سے بالعموم معنوی شے مراد ہے۔ بندہ کے کسب اور فعل کو اس میں کوئی دخل نہیں ، یعنی یہ وہبی چیز اور ﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطیہ ہوتی ہے ، جو کبھی مشکل و پریشانی کے وقت ایمان والے بندہ کے دل پر اُترتی ہے تو اس سے اس کا خوف جاتا رہتا ہے اور بے چینی و اضطراب کا ازالہ ہوتا ہے ۔ کبھی تلاوت قرآن کے موقع پر سکینت کا نزول ہوتا ہے اور کبھی اس کا اثر قول و فعل کی درستگی اور حکمت و معرفت کی موتیوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔
    سکینت کا ایک ظاہری مفہوم وقار و اطمینان کا ہوتا ہے ، یعنی آدمی کوئی کام کرے تو اس میں سنجیدگی اور وقار کا اظہار ہو ، عجلت و جلد بازی سے کام نہ لے ۔ اس معنی و مفہوم کے لحاظ سے یہ ( یعنی سکینت) کسبی اور اختیاری چیز ہے اور بعض موقعوں پر اس کی تعلیم و ترغیب بھی دی گئی ، مثلاً ایک مرتبہ کچھ لوگ جنازہ کے ساتھ دوڑ رہے تھے تو رسو ل اللہ نے فرمایا:
     ’’ تم پر سکینت ظاہر ہونی چاہئے۔ ‘‘
     یعنی جلد بازی نہ کرو، اطمینان ووقار کے ساتھ چلو۔
    اسی طرح نماز کے لئے مسجد جاتے ہوئے یہ تعلیم دی گئی کہ آدمی سکینت ووقار کے ساتھ چلے ، دوڑ کر اضطراب و بے چینی یابے ادبی کا مظاہرہ نہ کرے ۔ رسول ﷲنے ارشاد فرمایا:
     ’’ جب تم اقامت سنو پھر نماز کیلئے چلو تو تم پر سکینت اور وقار ہو ، اس موقع پر تم دوڑو نہیں جو نماز ( امام کے ساتھ ) مل جائے اسے پڑھ لو اور جو چھوٹ جائے اسے ( امام کے بعد ) پوری کرلو ۔‘‘( بخاری )۔
     عام طورپر اقامت سننے کے بعد تکبیر تحریمہ کو پانے کیلئے یا جماعت کھڑی ہونے کے بعد امام کیساتھ رُکوع پانے کیلئے دوڑنے کا امکا ن زیادہ رہتا ہے ، اسلئے خاص طورپر یہ فرمایا گیا کہ ’’ جب تم اقامت سنو ‘‘ ورنہ کوئی اقامت سے بہت پہلے مسجد کیلئے گھر سے نکلے تب بھی یہی حکم ہے کہ وہ مسجد کی طرف سکینت اور وقار کیساتھ چلے چنانچہ ایک دوسری روایت میں اقامت کی قید کے بغیر مطلقاً یہ الفاظ ہیں کہ ’’ جب تم مسجد کیلئے آؤ ‘‘۔
     نماز ہی کیا اسکے علاوہ بھی چال ڈھال اور دیگر اقوال و افعال میں بھی سکینت یعنی سنجیدگی اور وقار مطلوب و پسندیدہ وصف ہے ۔
 

شیئر: