Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’سفرنگ فرام فیور‘‘

******شہزاد اعظم******
بچپن، عجیب دور ہوتا ہے ۔ یہ اچھے، برے،ظالم ، مظلوم، غلام ، آقا، استاد، شاگرد،مالک ، نوکر، خادم ، مخدوم، تونگر، محروم، جاہل، عاقل، حتیٰ کہ میاں اور بیوی، ہر کسی کی زندگی میں آتا ہے۔یہ انسانی عمر کا وہ دور ہوتا ہے جس میں وہ سب کی سنتا ہے اور سب اُس کی سنتے ہیں۔ اس کی شریفانہ مثال یوں دی جاتی ہے کہ بچپن ایک سادہ ’’ورق ابیض‘‘ کی طرح ہوتا ہے، اس قرطاسِ زیست پر آگہی ، وقت کی روشنائی سے خامہ فرسائی کرتی ہے۔اس کی ابتدا ’’ابجد‘‘ سے ہوتی ہے ۔ یہ تحریراوائل عمری میں خطاطی کا شاہکار لگتی ہے، ہر حرف حَسین،واضح اور بامعنی۔پھر جوں جوں وقت گزرتا ہے ، اس قرطاس کی سفیدی پر تفہیم کی ترقیم کے باعث سیاہی غالب آتی جاتی ہے اور ایک دور وہ آتا ہے جب یہ ورقِ حیات ’’اسود‘‘ ہو جاتا ہے۔ اب اس پرکسی ’’نقطہ زنی‘‘کی گنجائش نہیں رہتی۔یوں ’’ابجد‘‘ جیسے سہل حروف سے شروع ہونے والی زندگی اب ’’ضظغ‘‘جیسی اشکال سے نبردآزما ہوجاتی ہے۔ عمر کی اس منزل کو پہنچ کر انسان کسی کی نہیں سنتااور کوئی اس کی نہیں سنتا چنانچہ ہوائے اجل اسے اُڑا لے جاتی ہے ۔
بچپن کا دور عجب اس لئے ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسان جو پیتا ہے اور کھاتا ہے، جو کھوتا ہے اور پاتا ہے، جو سمجھتا ہے اور سمجھاتا ہے، جو بنتا ہے اور بناتا ہے ،دیکھتا ہے اوربتلاتا ہے یا جو پڑھتا ہے اور پڑھاتا ہے، سب کا سب ، نہ صرف حرف بہ حرف یاد رہتا ہے بلکہ بے انتہا سہانا لگتا ہے۔وہ ساری زندگی اسے نہ تو بھولتا ہے، نہ بھلا سکتا ہے اور نہ بھلانا چاہتا ہے۔
ہمیں فخر ہے کہ ہمارے بچپن کا موسم مس شکیلہ کے زیر سایہ گزرا۔ انہوں نے جو ہمیں سمجھایا وہ آج بھی ازبر ہے ، جو انہوں نے رٹایا وہ آج بھی فر فر ہے ۔ انہوں نے ہمیں فرنگیوں کی زبان میں بیماری کی عرضی لکھوائی اور پھر یاد کرائی تھی۔یہ عرضی پہلے ہمارے تعلیمی اوربعد ازاں ملازمتی دور میں بے انتہاء کام آئی۔جب تک ہم وطن میں تھے، تو اسی عرضی کے بل پر سیکڑوں چھٹیاں لیں ۔ وہ عرضی ہمیں فر فر یاد ہے، اس کے ’’بول‘‘ یوں تھے:
’’آئی بِیگ ٹو سَے دیٹ آئی ایم سفرنگ فرام فیور ایٹ ہوم، کائنڈلی گرانٹ می لِیو فار ونڈے‘‘۔ ہم یہ الفاظ کاغذ پر تحریرکر کے جس کسی کے سامنے رکھ دیتے وہ فوری قائل ہوجاتا اور چھٹی منظور کر لیتا۔ہمیں یاد ہے ،کے جی ون سے لے کر میٹرک تک ہم نے اسی انگریزی عرضی کی مدد سے کم سے کم 320چھٹیاں لیں۔یہ ایسی عرضی تھی جو ہر طرح کی چھٹی کیلئے کام آتی تھی مثلاً ہمیں اپنے والدین کے ساتھ 5روز کیلئے بہاولپور جاناتھا ، ہم نے یہی عرضی5مرتبہ لکھ کر اپنے ہم جماعت محترم پیجی کے حوالے کر دی اور ان سے کہہ دیا کہ 5روز تک ہر روز ہماری ایک عرضی مس شکیلہ کو دے دیا کریں۔ پیجی نے ایسا ہی کیا اور ہم چھٹے روز اسکول پہنچ گئے۔کسی نے کوئی شبہ نہیں کیا بلکہ مس شکیلہ تو خاصی پریشان سی لگ رہی تھیں ۔ انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی کہا کہ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ ہم نے کہا بالکل پہلے جیسی۔ انہوں نے شکر ادا کیا۔
اسکولی حیات کے 10برس گزارنے کے بعد ہم کالج میں داخل ہو گئے۔ایک ماہ بمشکل گزرا تھا کہ ہمیں چھٹی کی ضرورت پڑ گئی۔ ہم نے اسی انداز میں مس شکیلہ کی رٹائی ہوئی عرضی لکھ کر شیدے کو دے دی اور کہہ دیا کہ ا سے سر منظور کو دے دینا۔یہاں یہ باور کرانا بے حد ضروری ہے کہ سر منظور ہمارے کلاس ٹیچر ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف انگریزی کے استاد تھے بلکہ بہت ہی استاد تھے۔اُس روز تو ہم نے چھٹی کر لی، اگلے روز کالج پہنچے۔ جماعت میںتمام زنانہ و مردانہ حاضری پوری تھی ۔سر منظور حسب دستور ،5منٹ کے بعد کمرۂ جماعت میں وارد ہوئے۔ ہم سب نے کھڑے ہو کر سلام کیا۔ انہوں نے بیٹھنے کی ہدایت کرتے ہی ہمارا نام لیا کہ ذرا آپ اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوجائیں۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی۔ سر منظور نے فرمایا کہ آپ کو میں اچھا بھلا ذہین انسان سمجھتا تھا مگر آپ تو لکیر کے فقیر نکلے۔وہی 150 سال قدیم عرضی دے ماری۔ یقین جانئے اگر میں اس عرضی کا اردو ترجمہ کروں تواسے سن کر ہر ذی ہوش ، بیدار ضمیر اور صاحب توقیر اپنا سر پیٹ لے گا۔ اس کا ترجمہ یوں ہے کہ :
’’میں آپ سے کچھ کہنے کی بھیک مانگتا ہوں کہ میں بخار کی ابتلا میں مبتلا ہوں، مہربانی فرما کر مجھے ایک روز کی رخصت بخش دیجئے۔‘‘ترجمہ مکمل ہوتے ہی کمرہ جماعت میںتھپاتھپ کی آوازیں سنائی دینے لگیں کیونکہ وہاںموجود 250میں سے 249طلبہ و طالبات اپنا سر پیٹ رہے تھے ، بس ایک ہم تھے جوہکا بکا رہ جانے کی وجہ سے ’’سر پٹول‘‘میں مشغول نہیں تھے۔ 
سرمنظور نے کہا کہ اگر میں آپ کو اس بھیک میں چھٹی کی بخشش کا ارادہ کر ہی لوں تو مجھے کیا خبر کہ آپ کو ملیریا ہے، ٹائیفائیڈہے، نزلے کی وجہ سے بخار ہے ۔ یہی نہیں بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ آپ کو بخار ہے بھی یا نہیں؟ ممکن ہے سر میں درد ہو، کمر میں درد ہو، پیروں پر ورم ہو، قے و متلی ہو، ہڈی ٹوٹ گئی ہو، پیٹ میں گیس ہو، کوئی بھی مرض ہو مگر عرض صرف اور صرف یہی ہوتا ہے کہ ’’سفرنگ فرام فیور‘‘۔یہ عرضی اتنی بدنام ہو چکی ہے کہ اب کوئی ادارہ ، کوئی افسر یا کوئی سربراہ اس کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ہمارے کالج کے تدریسی عملے کی ایک ہستی نے اپنی شادی کیلئے چھٹی لی تو اس میں بھی یہی لکھا کہ ’’سفرنگ فرام فیور‘‘، ایک طالبعلم کی کار کو حادثہ ہو گیا، اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، اس نے بھی یہی لکھا کہ’’سفرنگ فرام فیور‘‘حتیٰ کہ ہماری ایک ساتھی کو طلاق ہوگئی ، وہ شدید ذہنی تنائو کا شکار ہوگئیں۔ انہوں نے چھٹی کیلئے د رخوراست میں لکھا ’’سفرنگ فرام فیور‘‘۔ اس لئے آئندہ بیمار پڑیں تو درخواست ارسال کرتے وقت نہ صرف بیماری بلکہ اس کا باعث بننے والے جراثیم کا نام ،شدت کا معیار،متاثرہ عضو ، ڈاکٹروں کی آراء اورممکن ہو تو تجویز کردہ ادویہ کے نام اور مقدار خوراک وغیرہ سب لکھا کریں تاکہ درخواست منظور کرنے میں آسانی ہو۔
آج ہمیں سر منظورکا شاگرد اور ہمارا ہم جماعت شیدا ملا۔اس نے کہا کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت کا حال یہی ہے کہ وہ  جب بھی انتخابات کے لئے ووٹ مانگنے آتے ہیں توعوام کو بے وقوف بنانے کے لئے ایک ہی بات کہتے ہیں کہ آپ لوگ ہمیں موقع دیں، ہم غربت مٹا کر، عوام کو انصاف دلا کر، سب کو روٹی کپڑا اور مکان دے کرملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کر دیں گے اور جب عوام انہیں موقع دے دیتے ہیں تو ان میں سے اکثر خود کو یہی سمجھاتے ہیں کہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘۔ شیدے نے کہا کہ سچ یہ ہے کہ ہمارے ان رہنمائوں نے بھی’’سفرنگ فرام فیور‘‘ جیسا سبق رٹ رکھا ہے ، وہ بھی لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں، کاش ان سیاسی رہنماؤں کا بھی کسی سر منظورسے پالا پڑ جائے ،تو وطن عزیز شاہراہِ ترقی پرتیز رفتاری سے گامزن ہو جائے گا۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں