Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’بڑے ابا‘‘

شہزاد اعظم
بچپن کاعمل تھا،ہم پاکستان کے ایک خوبصورت شہر ’’پنڈدادن خان‘‘ کے مضافات میں کرائے کے مکان میں اپنے ایک ابو اور ایک امی کے ساتھ رہتے تھے۔یہاں یہ باور کرانا اس لئے ناگزیر سمجھا گیا کیونکہ اُس دور میںپنڈدادن خان کا معاشرہ مشترکہ خاندانی نظام پر ہی مبنی تھا۔تقریباً ہر گھر میں ہی کئی کئی بھائی مل کر اور ان سب کی بیویاں اور بچے شیر و شکر ہو کررہتے تھے۔یہ صورتحال ہماری عمر کے معصوم بچوں کیلئے خاصی پریشان کن تھی کیونکہ انہیں ا پنے باپ کے بڑے بھائیوں کو تایاابا اور چھوٹے بھائیوں کو چاچا ابا کہنا پڑتا تھا ۔ اب جس بچے کے ابو کے 3یا4بڑے بھائی اور 4یا5چھوٹے بھائی ہوتے ، وہ تو بے چارے مشکل میں پھنس جاتے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرنے کے لئے ایک مثال پیش خدمت ہے :
پنڈ دادن خان میں ہمارا انتہائی جگری دوست''نکو"تھا ۔ اسکے والد کے کل9بھائی اور 5بہنیں تھیں۔ ان تمام بہن بھائیوں میں نکو کے ابو کا نمبر 7واں تھا۔ایک روز ایسا ہوا کہ''نکو"کے ایک عمزاد نے اس کی پنسل چوری کر لی اور دوسری عمزادی نے اس کے گال پر زناٹے کا تھپڑ رسید کر دیا۔ وہ اپنی اماں کے پاس روتا ہوا آیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اس نے جو کچھ کہا وہ بذات خود ایک ایسا گورکھ دھندہ تھا کہ اسے سننے اور سمجھنے کے لئے بھی انتہائی ذہین و فطین ہونا ضروری تھا کیونکہ ''نکو"نے کہا کہ اماں ، میرے چوتھے ابو کے تیسرے بچے نے میری پنسل چُرا لی اور میں نے جب اس سے وہ چھیننا چاہی تو 9ویں ابو کی 5ویں بیٹی نے میرے رخسارپر طمانچہ رسید کر دیا۔‘‘
اس محلے میں مشترکہ اور کثیر خاندانی نظام کے باعث ایسی کیفیات وجود میں آئیں کہ معاشرے میں ہر فردکیلئے’’ اَبوں کی تعداد‘‘ کا حساب کتاب رکھنا انتہائی ضروری قرار دیاجاتا تھا۔ اس قسم کے خاندانی نظام کے کئی فوائد تھے۔ ایک فائدہ تو یہی تھا کہ اس محلے کی بہو ہو یا ساس، سسر ہو یا داماد، بیٹی ہو یا بھابی، نند ہو یا سالی،ہمزلف ہو یا سلہج،کنواری ہو یا شادی شدہ، بیوہ ہو یا سہاگن، مطلقہ ہو یا مخلوعہ، ہر کسی کو حساب کتاب بہت اچھی طرح آتا تھا۔ اسی لئے اُس دور میں وطن عزیز میں ریاضی کے میدان میں جھنڈے گاڑنے والوں کی اکثریت کا تعلق ’’پنڈدادن خان ‘‘ سے ہی ہوا کرتا تھا۔
ہمارے مکان کے بالکل سامنے ایک عالی شان حویلی تھی جس میں پانی کے لئے ٹیوب ویل موجود تھا، اناج کے لئے کھیت تھے، کمائی کے لئے تیل کا کنواں تھا، خدمت کے لئے نوکر ، نوکرانیاں، چاکر، چاکرانیاں سبھی بافراط موجود تھے۔سب کو بھاری بھرکم تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ وہ سب کے سب ہنسی خوشی زندگیاں گزار رہے تھے ۔اس ’’آزاد وخود مختار‘‘ حویلی میں بھلو بھائی اپنی بیوی اور 13بچوں کے ساتھ مقیم تھے۔ بالائی منزل پر ان صاحب کی بہن’’بھلی‘‘ اپنے شوہر اور 11بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔حویلی اتنی پرآسائش اور قابل دید تھی کہ کوئی اسے چھوڑ کر جانے کے لئے کسی طور تیار نہیں ہوتا تھا۔ اسی لئے جب بھلو نے اپنی بہن کی شادی کرنا چاہی تو اس ہمشیرہ نے شرط عائد کر دی کہ میں اس حویلی سے رخصت ہو کر نہیں جائوں گی بلکہ میرا دولہا یعنی آپ کا بہنوئی رخصت ہو کر اس حویلی میں آئے گاچنانچہ ایسا ہی ہوا۔انتہائی دھوم دھڑکے سے بھلی کی شادی ہوئی اورتمام تر طمطراق سے دولہا میاں رخصت ہوکر اپنی بیوی کے گھر چلے آئے۔اس حویلی کی آبادی میں ہر سال متعدد نفوس کا اضافہ ہو جاتا تھاکیونکہ نہ صرف بھلو اور بھلی بلکہ تمام نوکران و چاکران بھی اپنے اپنے شریک حیات کے ساتھ اس عظیم ’’چمنستان‘‘ میں زندگی بس کر رہے تھے ۔حویلی کا نظام و انصرام رواں رکھنے کے لئے بھلو اور بھلی میں اکثر تو تکار ہو جاتی تھی جس کے باعث فیصلہ یہ کیا گیا کہ پہلے 5سال کے لئے تمام انتظام بھلو کے حوالے کر دیاجائے اور آئندہ 5برس کے لئے تمام انصرام بھلی کو سونپ دیاجائے۔
بھلو نے 5برس کے لئے حویلی کا نظام سنبھالا تو اس نے خوب عیش کی۔ انہوں نے حویلی کے کنویں سے ہونے والی آمدنی سے اپنے بیوی بچوں کو خوب سیریں کرائیں۔ انہیں ٹھنڈے ٹھار ممالک لے گئے ۔وہاں جائدادیں خریدیں، بعض بچے توگوری رنگت سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہیں کے ہو کر رہ گئے۔بھلو نے حویلی کے نوکروں، نوکرانیوں کے بارے میں لاپروائی برتنا شروع کر دی۔ انہیں تنخواہیں پہلے تو تاخیر سے دینے کا وتیرہ اپنایا اور اس کے بعد ان کے مشاہرے میں کٹوتیوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔
بھلی بے چاری سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہی۔ اس کا میاں بھی صبر کرتا رہا۔پھر یوں ہوا کہ 5سال مکمل ہوگئے اور اب آئندہ 5برس کے لئے حویلی کا تمام انصرام بھلی کے ہاتھ میں آگیا۔بھلی نے نظام بہتر بنانے کی کوشش کی مگراس کے شوہر نے اس کے کان بھرے اور کہا کہ جب تمہارے بھیا کو حویلی اور اس کے باسیوں کی فکر نہیں تو تمہیںایسی کیا پڑی ہے۔بھلی کا شوہر بچوں کو لے کر بیرون ملک چلا گیا اور وہاں عیش کی زندگی بسر کرنے میں مگن ہو گیا۔ وہ ہر ماہ بھلی کو فون کرکے بڑی رقم منگا لیتا اور پھر سارے مہینے بیوی کو نہیں پوچھتا تھا۔شوہر کی بے اعتنائی دیکھ کر بھلی بھی بیرون ملک پہنچ گئی۔ حویلی کے حالات دگر گوں ہونے لگے۔ نوکرانیوں اور چاکرانیوں نے نہوت کے باعث اپنے شوہروں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ان میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔ کئی چاکرانیاں طلاق لے کر چلی گئیں۔ ان کے بچے بچیاں بری طرح رُل گئے۔ 5سال یونہی گزر گئے اورایک بار پھر بھلو بھائی کی باری آگئی۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو، حویلی کے تمام نوکروں کی تنخواہیںکم کر دیں۔ تیل کی تمام کمائی سمیٹ کرگورے ملک چلے گئے ۔ حویلی کے مکینوں کے حالات بد سے بد تر ہوتے گئے۔ انہوں نے اپنے طور پر حویلی کی کمائی ہر ممکن طریقے سے لوٹنا شروع کر دی۔یہ سلسلہ برسہا برس جاری رہا۔
پھر یوں ہوا کہ ایک روز ایک ٹیلی فون آیا جس سے بھلو اور بھلی کے ہاتھوں کے توتے ، چڑیاں سب ا ُڑ گئے، ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ تمام بچے بچیاں بھلو، بھلی کے گرد جمع ہوگئے اور استفسار کیا کہ فون کس کا تھا؟ بھلو نے کہا کہ اسلام آباد سے ’’بڑے ابا‘‘ کا فون تھا، وہ کہہ رہے تھے کہ گزشتہ 60برس کے رجسٹر کھول کر رکھنا، میں حساب کتاب کرنے آ رہا ہوں،حویلی کے نوکروں، چاکروں کی بہت شکایات موصول ہوئی ہیں۔یہ سن کر بھلی بے ہوش ہو گئی۔بھلو تھر تھر کانپنے لگے۔
کل ہم نے عجب خواب دیکھا، جیسے ہم کوئی ٹی وی چینل دیکھ رہے ہیں ، اسی دوران نیوز اینکر نے کہا کہ ’’بڑے ابا ‘‘نے کہا ہے کہ وہ  وطن لوٹ رہے ہیں، تمام حساب کتاب تیار رکھا جائے۔ یہ سنتے ہی ہم نے پوری قوت سے ریموٹ کا بٹن دبایا اورچیخ مارتے ہوئے اٹھ بیٹھے مگر صد افسوس کہ ہم نے انگلی سے ریموٹ نہیں بلکہ موبائل کا بٹن دبا رکھا تھا۔ ہمیں ہماری فطانت ، فہم و فراست نے باور کرایا کہ ’’الارم‘‘ بج رہا ہے، یہ اسی کا شورہے ۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں