Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’اصلاح ‘‘

***شہزاد اعظم***
ہماری عمر عزیز کا 13واںسال، چھٹا مہینہ اور ساتواں دن تھا۔حسبِ معمول ہم صبح سویرے اٹھے اور اپنے رُخِ معصوم کو تاڑنے کے لئے آئینے سے منہ در منہ ہوئے تو بھونچکا رہ گئے۔ ہمارے ’’لبِ بالا‘‘کا’’  خطِ زیریں‘‘راکھ نما رنگت لئے واضح ہو رہا تھا۔ ہماری تو سٹی ہی گم ہوگئی۔ ہم نے غسل خانے میں جا کر اپنے منہ کو صابن سے رگڑا اور پھرہینڈ پمپ چلا کر کافی دیر تک کئی وقفوں میںمنہ دھویا۔ بار بار جا کر آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا مگر وہ سیاہی جوں کی توںتھی۔ ہینڈ پمپ کی ’’ڈھینچوںڈھینچوں‘‘ سن کر ہماری منجھلی خالہ اپنی زلفوں کو جوڑے کی گولائی میں محدود کرتی اُدھر آنکلیں اور گویا ہوئیں کہ یہ صبح صبح ہینڈ پمپ سے اس قدر لٹھم لٹھاکیوں ہو رہے ہو؟جلدی جائو اور مجھے باقرخانی لا کر دو، مجھے یونیورسٹی جانا ہے ،دیر ہو رہی ہے۔ہم چہیتی خالہ کیلئے باقر خانی لے کر آئے تو انہوں نے میز پر دودھ سے بھرے 2پیالے سجا رکھے تھے۔ انہوں نے دونوں پیالوں میں باقر خانی چورہ چورہ کر کے ڈالی اور ایک پیالہ ہماری جانب بڑھا دیا اور اپنے پیالے سے ایک چمچہ اپنے ہاتھوں سے ہمارے منہ میں دیا اور کہنے لگیں: یہ میں اپنے ’’شدو‘‘ کو شاباش دے رہی ہوں۔ ہم نے اپنی خالہ کو دیکھا، جارجٹ کے سفید دوپٹے کی اوٹ سے جھانکتی ان کی سیاہ آنکھوں میںہمارے لئے اتنا پیار تھا کہ جس کی مثال ماں کے سوا اس روئے زمین پر ہمیں آج تک نہیں مل سکی۔ہم نے پوچھا، منجھلی خالہ: پتہ ہے ہمارے بالائی ہونٹ پرراکھ کی سی سیاہی نمودار ہو رہی ہے، بہت رگڑ رگڑ کر دھویا مگر یہ وہیں کی وہیں ہے۔ وہ ہنسنے لگیں اور بولیں کہ شدو !اپنی تذکیر کے پیچھے کیوں پڑے ہو،آخرمرد ہو، مذکرکونپلیںتو پھوٹیںگی۔یہ ہے مردانگی کی نشانی، اس میں کیا پریشانی؟ اب آپ لوگوں کیلئے بچے نہیں رہے البتہ میرے لئے تو تم بچے تھے، بچے ہو اور بچے ہی رہو گے۔یہ کہہ کر انہوں نے برقع پہنا، اسی اثناء میں وین کا ہارن بجا اور وہ سلام کرتے ہوئے ہمارا گال نوچ کر دروازہ بند کرنے کا حکم صادر فرما کر چلتی بنیں۔
منجھلی خالہ کے جانے کے بعد ہم دوبارہ آئینے کے روبرو حاضر ہو گئے۔ ہمیں اپنی خالہ کے الفاظ یاد آ رہے تھے کہ ’’آخر مرد ہو،یہ ہے مردانگی کی نشانی، اس میں کیا پریشانی‘‘۔اچانک ہمیں محسوس ہوا جیسے آئینہ ہم سے گفتگو کر رہا ہے اور باور کرا رہا ہے کہ اب آپ بچے نہیں رہے، بڑے ہو گئے ہیں۔ والد صاحب نے جب ہمارے چہرے پر مردانہ فصل کے آثار دیکھے تو ’’سرزنش‘‘ کے انداز میں گویا ہوئے کہ مبارک ہو، آپ جوان ہو گئے ہیں، آپ کی نظر بالغ ہو گئی ہے ، اب باقیماندہ زندگی میں ہمیشہ ’’بالغ نظری‘‘ سے کام لیناتاکہ ملک و قوم کیلئے مثل سحاب بنو،نہ کہ ان کیلئے مستقبل کا عذاب بنو۔اپنے وجود کا خاصّہ بنا نابرد باری اور انکساری ورنہ تا حیات پیچھا نہیں چھوڑے گی ذلت و خواری ۔ خود پسندی ، ہوس و رعونت جیسے انسانیت کے ناسوروں سے دور رہنا، تحمل، تدبر،تفاخر، تشکرکو سمجھنا اپنا گہنا۔
والد محترم کی نصائح ہمارے ذہن کے ’’دفترِ خِرد‘‘ میں طلائی حروف سے مرقوم ہوگئیں۔ان کی ایک نصیحت تو ہر روزہمارے عزائم کی فلک بوس عمارت کے صدر دروازے پردستک دیتی کہ ’’ ملک و قوم کیلئے مثل سحاب بنو،نہ کہ ان کیلئے مستقبل کا عذاب بنو‘‘۔ ہم کئی ماہ کی مسلسل ریاضت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ والد صاحب کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ’’مثلِ سحاب‘‘ بننے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم سیاسی میدان میں قدم رنجہ فرمائیں اور مخلص رہنما بن کر، قیادت کے عزم سے معمور ہو کر قوم کی باگیں تھام لیں اور راہِ ترقی پر سبک خرامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بام عروج کو اپنی قدم بوسی پر مجبور کر دیں۔ہم نے انہی سوچوں سے مغلوب ہو کر اپنا مستقبل سیاست کی نذر کرنے کی ٹھان لی۔اس کیلئے سب سے پہلا قدم ہم نے اسکول میں اٹھایاجب ہم نے بزمِ ادب کے جنرل سیکریٹری کے عہدے کیلئے کمرۂ جماعت میں ہونیوالے انتخابات میں 6امیدواروں کا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑے ہوئے۔ انتخابی مہم کیلئے 5روز دیئے گئے تھے۔ہماری کلاس ٹیچرمس شکیلہ نے کہا کہ آپ کو ’’منشور‘‘ کی شکل میں اپنے عزائم آشکار کرنے کی اجازت ہے ۔ آپ میں سے ہر امیدوارکو باری باری 5منٹ کا وقت دیاجائیگا تاکہ آپ اپنے ارادوں سے ساتھی طلبہ و طالبات کو آگا ہ کریں۔ یہ کہہ کر مس شکیلہ نے سب سے پہلے ہمیں دعوتِ خطاب دی۔ ہم نے اپنے عزائم بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی ترویج، تلفظ، جملوں کی تشکیل،زبان و ادب اور محاوروں کے استعمال پر زور اور قومی زبان سے عشق ہمارا منشورِ ذات ہے ۔ بزم ادب کے جنرل سیکریٹری کا انتخاب جیت کر ہم اخوت و احترام کے جذبوں کو فروغ دیں گے ۔ 
ہمارے خطاب کے بعد 5امید وار مزید آئے ۔ ان میں سے کسی نے بھی منشورنما کوئی عزم ظاہر نہیں کیا بلکہ سب نے ہمیں ہی نشانہ بنایا اورنہایت گھٹیا دشنام طرازی کی۔ ایک نے کہا کہ ان سے پوچھا جائے کہ یہ فجر کی جماعت میں اگلی صف میں نظر کیوں نہیں آئے؟ جو نماز سے غفلت برتنے کا عادی ہو وہ ہمارے بزم ِادب کا عہدیدار کیونکر ہو سکتا ہے؟ سب نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ ہم نے کہا کہ فجر کی نماز ہم نے محلے کی مسجد میں نہیں پڑھی ۔ اس پر ایک امید وار نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان سے پوچھاجائے کہ اگر وہ فجر کے وقت اپنے محلے میں نہیں تھے تو رات بھر کہاں رہے؟ سب نے نعرے لگائے شیم شیم۔ایک اور امیدوار نے ہمیں ہی برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ یہ موصوف قوم کی رہنمائی کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، حالت یہ ہے کہ انہیں قومی لباس شلوار قمیص سے بھی نفرت ہے، وہ انگریزی پہناوا پینٹ شرٹ زیب تن کر کے اسکول آتے ہیں۔جنہیں قومی لباس ایک آنکھ نہیں بھاتا، انہیں قوم کیسے بھائے گی؟ سب نے کہا شیم شیم۔ ہم نے کہا کہ شلوار قمیص ہم بالکل پہنتے ہیں۔ کئی مرتبہ پہن کر اسکول بھی آئے ہیں مگر شیم شیم کی آوازوںمیں ہماری دلیل دب گئی۔پھر یوں ہوا کہ ہم اگلے روز بیکری سے ڈبل روٹی لینے گئے تو بزم ادب انتخابات کے 4امید وار وہاں آنکلے اور ہم سے کہا کہ انتخابات سے دستبردار ہو جائو۔ ہم نے کہا کہ اگر نہ ہوں تو؟ یہ سن کر ان چاروں نے گھونسے، ٹھڈے، جوتے اور لاتیں برسانی شروع کر دیںاورہمارا بھرکس نکال کر چلے گئے۔ہم نے مس شکیلہ سے شکایت کی تو انہوں نے چاروں کو ڈانٹا، شور شرابہ سنکر ہیڈ ماسٹر وہاں نکل آئے۔ انہوں نے امیدواروں سے پوچھا کہ تم نے ان کی پٹائی کیوں کی؟ انہوں نے کہا ’’سر! اس نے کام ہی مار کھانے والا کیا تھا،اس نے ہماری بات ماننے سے انکارکرکے ہمیں غصہ دلایا تھا۔ وہ تو ہم نہتے تھے ورنہ کام ہی تمام کر دیتے۔ اس پر ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ بے شک غصہ دلانا اصل جرم ہے ، مار پٹائی تو اس کا انجام ہے۔اس لئے میں ان موصوف کو بزم ادب کے عہدے کے انتخابات کیلئے نااہل قرار دیتا ہوں۔یہ کہہ کر انہوں نے ہمارا نام امیدواروں کی فہرست سے کاٹ دیا۔بس اسی دن ہماری ’’اصلاح ‘‘ہوگئی۔ہم نے سیاست ، رہنمائی، قوم، عوام،باگیں،زمام، اختیار، اقتدار، ترقی، ووٹ اورانتخابات جیسے الفاظ اپنی لغت سے نکال پھینکے ۔آج ہم مار کھانے والے تو پردیس میں بے اختیار ہیں اور ہماری دھنائی کرنیوالے وطن میں بااختیاربنے بیٹھے ہیں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں