Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قصہ ایک طلسماتی اسکینڈل کا

***معصوم مرادآبادی***
کیا آپ کسی ایسے اسکینڈل کا تصور کرسکتے ہیں جس سے سرکاری خزانے کو پونے2لاکھ کروڑ روپے کانقصان پہنچنے کے اندازے لگائے گئے ہوں اور جسے تاریخ کے سب سے بڑے مالی اسکینڈل سے تعبیر کیاجارہا ہولیکن جب وہ عدالت میں پہنچا تو وہاں بری طرح پاش پاش ہوجائے اور عدالت اسے ایک فرضی اسکینڈل قرار دے کر تمام ملزمان کو باعزت بری کئے جانے کے احکامات جاری کردے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے سرکار کے دوسرے دور میں ’بے نقاب ‘ہونے والے اس عجیب وغریب اسکینڈل نے حکومت کی چولیں ہی نہیں ہلادی تھیں بلکہ اس کی وجہ سے انتہائی صاف ستھری امیج رکھنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی کٹہرے میں کھڑے ہوگئے تھے۔ اب جبکہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کے عنوان سے شہرت پانے والے اس اسکینڈل کو قطعی فرضی اور ہوائی قرار دیا ہے تو ملک میں بدعنوانی ، اسکینڈل اور گھوٹالوں کی نئی تعبیریں ایجاد کی جارہی ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹوجی اسپیکٹرم کا پورا اسکینڈل کسی منظم اور منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا جس کا مقصد اس وقت کی یوپی اے سرکار کی بنیادوں میں ریت بھرکر اسے زمیں بوس کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی اپوزیشن جماعت بی جے پی کو اپنے مقصد میں اس حد تک کامیابی نصیب ہوئی کہ وہ منموہن سنگھ سرکار کو اب تک کی سب سے زیادہ بدعنوان حکومت ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب جبکہ عدالت نے اس پورے اسکینڈل کو ہوا میں اڑا دیا ہے تو بی جے پی کے لیڈران بغلیں جھانکتے اور عدالتی فیصلے کی عجیب وغریب تاویلیں پیش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاہے کہ’’ ٹوجی اسپیکٹرم کے نام پر سرے سے کوئی اسکینڈل ہوا ہی نہیں بلکہ ایک انگریزی اخبار کی خبر کو کچھ اداکار قسم کے لوگوں نے بڑھاچڑھاکر آسمان تک پہنچادیا۔ لوگ ایک بڑے اسکینڈل کا اندازہ لگانے لگے جو حقیقت میں وجود میں ہی نہیں تھا۔‘‘ 
خصوصی سی بی آئی عدالت کے جج اوپی سینی نے اپنے چونکانے والے فیصلے میں کہا ہے کہ ’’مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی جھجک نہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی قومی تحقیقاتی ایجنسی (سی بی آئی) کوئی الزام ہی ثابت نہیں کرسکی۔ میں7 سال تک ہرروز صبح سے شام تک عدالت میں بیٹھا ہوا انتظار کرتا رہا لیکن سب کچھ لاحاصل ثابت ہوا۔ ایک بھی آدمی یہاں نہیں آیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سبھی نے افواہوں ، بحثوں اور اندازوںکی بنیادپر یہ تصور کرلیاتھا کہ کوئی بہت بڑااسکینڈل ہوا ہے۔ظاہر ہے افواہوں، بحثوں اور اندازوں کی عدالتی عمل میں کوئی جگہ نہیں ۔‘‘
سی بی آئی جج نے 1500سے زائد صفحات کے فیصلے میں کہا کہ’’ اس معاملے کی فرد جرم صرف سرکاری ریکارڈ کی غلط تشریح کرنے ، کچھ خاص پہلوؤں پر دھیان دینے، باقی کو نظرانداز کرنے اور حقائق کے الگ الگ معنیٰ نکالنے پر مبنی ہے۔ اس میں کچھ گواہوں کے زبانی بیانات کا بھی ذکر ہے لیکن وہ بھی سرکاری ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے اس لئے انہیں تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔‘‘ 
عدالت نے اس معاملے میں وزیرمواصلات رہ چکے جنوبی ہند کے لیڈر اے راجا سمیت تمام 35ملزمان اور7 کمپنیوں کو بدعنوانی اورمجرمانہ سازش کے الزامات سے بری کردیا۔ 
ہم آپ کو یاددلادیں کہ یوپی اے کے دوسرے دور میں ٹوجی اسکینڈل نے پورے ملک کی توجہ اس وقت اپنی طرف مبذول کرلی تھی جب اس وقت کے سی اے جی ونود رائے نے اس معاملے میں ایک لاکھ 76ہزار کروڑ روپے کے سرکاری نقصان پر مبنی رپورٹ ملک کے سامنے پیش کی تھی۔ یہ جدید ہندوستان کا سب سے بڑا اسکینڈل بنا۔ اسی اسکینڈل کے بعد اناہزارے اور اروند کیجریوال کی لوک پال کی لڑائی اور بی جے پی میں نریندرمودی کی صورت میں ایک نئی قیادت کو قائم کرنے کے دور کا آغاز ہوا۔ ملک نے پہلی بار بدعنوانی کیخلاف ایک بڑی مہم کو دیکھا۔ کانگریس کے دامن پر ٹوجی اسکینڈل کی صورت میں ایک ایسا داغ لگا جس نے آنیوالے دنوںمیں اس کی راہ کو مشکل بنادیا۔ وہ منموہن سنگھ جو اپنے پہلے دوراقتدار (2004 تا 2009) کے دوران بہترین حکمرانی کی شبیہ والے وزیراعظم بنے تھے وہیں اپنے دوسرے دور (2009 تا 2014) میں اس اسکینڈل کی بنیاد پر سب سے کمزور وزیراعظم کی شبیہ میں بندھ گئے جن کی آنکھوں کے سامنے سرکاری خزانے کو لوٹا گیا۔ آخر کار بدعنوانی کے اسی ’داغ‘ کے تحت 2014کے عام انتخابات میں کانگریس پارٹی اپنی تاریخ کی سب سے بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔
اس اسکینڈل کے بعد ہی بدعنوانی ملک کی سیاست میں پہلی مرتبہ سیاست کے محور میں آگئی جس کے سہارے نریندرمودی نے پورے ملک کے جذبات کو اپنے حق میں کرلیا۔ وہیں اروندکیجریوال نے بھی اس موضوع کا سہارا لے کر سیاست کا سفر طے کیا لیکن آج 8سال بعد ٹوجی معاملے میں آئے بالکل انوکھے موڑ نے صورتحال کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ جس داغ نے کانگریس کو عرش سے فرش تک پہنچادیا تھا اب اسی معاملے میں عدالتی فیصلے کے بعد پارٹی اپنے اندر نئی زندگی محسوس کررہی ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد ہندوستانی سیاست میں ایسا ہی زلزلہ محسوس کیاجارہا ہے جیسا کہ اس نام نہاد اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد محسوس ہوا تھا۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس نام نہاد اسکینڈل کو ہواؤں میں اچھال کر جن سیاست دانوں کی کردار کشی کی گئی تھی اور جس حکومت کو ہمالیائی بدعنوانی کے الزام میں زمیں بوس کیاگیا تھا، کیا اس کی دوبارہ اقتدار میں واپسی یا پھر اس اسکینڈل کی زد میں اپنی عزت گنوانے والوں کی سرخروئی کا کوئی امکان ہے؟ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ عدالتی فیصلے کے بعد حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی اور اسکے لیڈران کٹہرے میں کھڑے ہوئے ضرور نظر آتے ہیںلیکن وہ اپنی عادت کے مطابق اس ہزیمت کو بھی اپنی کامیابی میں بدلنے کی سبیل پیدا کریں گے کیونکہ حکمراں جماعت کے لیڈروں میں شرم وحیا نام کی کوئی چیز موجود نہیں ۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں