Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حائل فیسٹول اختتام پذیر، سعودی دستکاری اور ثقافت کا جشن

بیت الحائل فیسٹول میں آرٹ پویلین بھی قائم کیا گیا تھا (فوٹو: ایس پی اے)
سعودی عرب میں حائل فیسٹول کا اختتام ہو گیا ہے جس میں مملکت، خلیج اور دیگر بین الاقوامی مقامات سے 95 ہزار سے زیادہ افراد سے شرکت کی۔
سعودی پریس ایجنسی کےمطابق ’اجا پارک‘ میں 30 روزہ بیت الحائل فیسٹول میں ثقافتی، فنکارانہ اور تاریخی میراث پر مبنی تجربات سامنے آئے۔ یہ فیسٹول روزانہ شام چھ سے رات ایک بجے تک جاری رہا۔
اس ایونٹ میں کلچرل ورثے کو دستکاری کے ذریعے، جبکہ روایتی ڈشز اور ثمودی عبارتوں کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے تقریبات منعقد کی گئیں۔

 کلچرل ورثے کو دستکاری کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا گیا (فوٹو: ایس پی اے)

بیت الحائل فیسٹول میں آرٹ پویلین بھی قائم کیا گیا تھا جس میں ممتاز فنکار، ریسن آرٹ کی نمائش، لوک تھیٹر، ورثے سے متاثر ہو کر بنانے جانے والے رہائشی ماڈل، اور کئی طرح کی پرفارمنسسز تھیں جو عسیر کے صوبے کی ثقافت کی عکاس ہیں۔
نمائش میں رکھی گئی چیزوں سے نوجوان نسل کو یہ معلوم ہوا کہ ان کے آباؤ اجداد قدرتی میٹریل کو کس طرح کام میں لائے جس سے سعودی میراث کی اختراع پسندی کا ثبوت ملتا ہے۔
فیسٹول میں 40 سے زیادہ سرگرمیوں سے یہاں آنے والوں کو جن باتوں کا علم ہوا ان میں روایتی ہنر جیسے بید اور ٹہنیوں سے چیزیں بنانا، السدُو بُنائی، کروشیے کا کام، ہاتھ سے کپڑا بُننا اور نجدی اور حائل طرز کے دروازے بنانا شامل ہیں۔

نوجوان نسل کو معلوم ہوا کہ ان کے آباؤ اجداد قدرتی میٹریل کو کس طرح کام میں لائے (فوٹو: ایس پی اے)

فیسٹیول کے دیگر نمایاں پہلوؤں میں روایتی لباس سازی، ثمودی طرز کی کڑھائی، لکڑی اور چمڑے کی تسبیحات اور صابن سازی تھے۔ یہ ایونٹ مقامی دستکاروں کے لیے اپنا کام براہِ راست لوگوں کے سامنے رکھنے کا ایک پلیٹ فارم بھی ثابت ہوا۔
کئی حکومتی عہدیداروں نے حائل فیسٹول کا دورہ کیا اور روایتی زندگی کی یاد تازہ کرنے اور تاریخی انداز سے روزمرہ زندگی گزارنے کے قدیم طریقوں کو پھر سے عوام کے سامنے لانے کی تعریف کی۔

سعودی عرب میں موریطانیہ کے سفیر نے بھی فیسٹول کا دورہ کیا (فوٹو: ایس پی اے)

سعودی عرب میں موریطانیہ کے سفیر مختار داھی نے بھی فیسٹول کا دورہ کیا، ان سٹالز اور پویلینز پر گئے جہاں مقامی ہنرمندوں کی تیار کردہ اشیا، نمائش کے لیے رکھی گئی تھیں۔
انھوں نے نمائش پر رکھی جانے والی اشیا کی تعریف کی جن میں بید اور ٹہنیوں سے چیزیں بنانا، السدُو بنائی، ہاتھ سے کپڑے کی تیاری اور فائبر آرٹس شامل ہیں۔
انہوں نے سعودی میراث کے اظہار کے لیے منعقد کی جانے والی ثقافتی پرفارمنسز کو سراہا۔

30 روزہ فیسٹول روزانہ شام چھ سے رات ایک بجے تک جاری رہا۔(فوٹو: ایس پی اے)

مملکت میں یورپی یونین کے سفیر کرسٹوفر فارنو بھی فیسٹول کو دیکھنے کے لیے آئے اور کھجور کے تنے اور پتوں سے بننے والی چیزوں، السدو بُنائی، دستی بُنا ہوا کپڑا، لکڑی کے روایتی دروازوں، ریسن آرٹ،کروشیے کے کام، ثمودی کڑھائی، لکڑی اور چمڑے کے کام کے بارے میں تعریفی کلمات کہے۔
دونوں سفیروں نے روایتی لوک پرفارمینسز بھی دیکھیں جن میں تلوار کا سعودی رقص، ’حائل سماری‘ جس میں ڈرم بجا کر شاعری سنائی جاتی ہے اور عسیر ریجن کی دیگر کئی فنکارانہ جہتیں پیش کی گئی تھیں۔

 

شیئر: