Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ایرانی نظام کا سقوط ہمارے لئے بہتر ہوگا؟

 عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
شروع میں یہ وضاحت ضروی معلوم ہوتی ہے کہ میرے اس تجزیے کی بابت یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ ایرانی آیت اللہ کے نظام کا ہر قیمت پر دھڑن تختہ ہونے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کا نظام اپنے اداروں اور ڈھانچے کے حوالے سے طاقتور ہے۔ یہ نظام طاقتور گروپ کا نمائندہ ہے۔اسے ہٹانا آسان کام نہیں۔ مظاہروں کے ذریعے ایرانی نظام حکومت کا دھڑن تختہ مشکل ہے۔ عوا م کے حرکت میں آنے کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کی بدولت ایران میں جزوی یا آئندہ چل کر کلی طور پر تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ تبدیلی میں معاون ثابت ہوگا۔ حالیہ مظاہروں نے ہمیں اسی طرح حیرت زدہ کردیا جیسا کہ 2009ءمیں ہونے والے اچانک مظاہروں نے کیا تھا۔ 
ایران میں مظاہروں کے ہمارے علاقے پر کیا اثر ات مرتب ہونگے؟ اس سوال کا جواب تو دیا ہی جائیگا۔ اس سے قبل ہمیں ایک اور سوال کا جواب درکار ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایران اور اسکے نظا م حکومت پر مظاہروں کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟ ظاہر ہے کہ ایران کے بعد ہی مظاہروں کے ہمارے اوپر اثرات برآمد ہونگے۔ اس حوالے سے کئی امکانات ہیں۔ پہلا تو یہی ہے کہ ایرانی سیکیورٹی ادارے مظاہروں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ 8برس قبل بھی کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ ایرانی سیکیورٹی اہلکار موبائل کیمروں کے سامنے نہتے مظاہرین کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرینگے۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ سیکیورٹی ادارے بحران کو قابو کرنے کیلئے جان بوجھ کر کچھ قربانیاں دیں۔ ایک طرف تو تحریک بیداری کا قلع قمع کریں اوردوسری جانب صدر روحانی اور انکی حکومت کو چلتا کردیا جائے۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ مظاہرو ںکا حجم بڑھ جائے۔ انکی شدت میں اضافہ ہوجائے۔ اس بحران سے برسر پیکار داخلی طاقتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ پاسداران انقلاب یا انکی حریف فوج اقتدار پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی تدبیر کریں۔ چوتھا امکان یہ ہے کہ ایرانی نظام حکومت مظاہروںکے نتیجے میں ختم ہوجائے اور ایران کی پوزیشن شام اورلیبیا جیسی بن جائے۔ یہ بعید ازا مکان ہے۔
تہران کے حکمرانوں کے خلاف ہونے والے ہنگامے تکلیف دہ ہیں۔ ان سے ایرانی عوام کی بھاری اکثریت اور دنیا بھر کے لوگوں کا اعتبار متزلزل ہورہا ہے۔ ان سب سے قطع نظر ایرانی حکمراں نظر ثانی پر بہر حال مجبور ہیں۔ مظاہروں پر پوری طرح سے کامیابی کیوں نہ حاصل ہوجائے تب بھی ایرانی حکمرانوں کو اپنی پالیسی اور رویئے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ایرانی صدر روحانی کا بیان اسی رجحان کی ہمنوائی کررہا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایرانی حکومت کو عوام کی بات سننا ہوگی۔ جہاں تک تیسرے اور چوتھے امکان کا تعلق ہے اس کے تحت اگر کوئی گروہ اقتدار پر قابض ہوتا ہے یا حکومت کا دھڑن تختہ ہوتا ہے تو اسکے نتائج خطرناک ہونگے۔ ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
جہاں تک ہمارا یعنی خطے کے ممالک خصوصاً عربوں کا تعلق ہے تو انکے لئے مثالی صورتحال یہی ہوگی کہ ایرانی حکومت کا مکمل دھڑن تختہ نہ ہو۔ عربو ںکے مفاد میں یہ ہے کہ ایرانی حکمراں اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرلیں اور اپنے جارحانہ عزائم سے باز آجائیں۔ بعض لوگوں کو یہ تصور عجیب و غریب لگ رہا ہوگا تاہم ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ تصور حقیقت کے عین مطابق ہے۔ دلیل یہ ہے کہ ہمارا خطہ فی الوقت تباہی وبربادی کے حالات سے دوچار ہے۔ ہمارے حالات نئی ا نارکی کے نتائج برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں لہذا اگر ایرانی عوام کی تحریک بیداری ایرانی حکمرانوں کی پالیسی تبدیل کرادے، خارجی دخل اندازیوں سے انہیں روک دے اور ان کا رخ داخلی اصلاحات اور ترقیاتی اسکیموں کی طرف موڑ دے تو یہ زیادہ مثالی حل ہوگا۔ یہ ایرانی حکومت کے مکمل سقوط کے خوفناک منظر سے ہمارے لئے کہیں بہتر ہوگا۔ اس مفروضے کا منفی پہلو یہ ہے کہ ایرانی حکمراں عصری ذہن کے مالک نہیں جو اپنے آپ کو از خود تبدیل کرلیتے ہیں۔ 
ایرانی حکمراں مذہبی فاشزم کے علمبردار ہیں۔ اس قسم کے عناصر کو اپنی فکر ، اپنی اسکیم اور اپنے اطراف کی دنیا کی بابت اپنے فکر و نظر کی اصلاح محال ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ ایران کی اعلیٰ قیادت کا ہے۔ اگر ایران کی اعلیٰ قیادت بحران کے تمام پہلوﺅں کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہوجائے اور بحران سے ملنے والے اسباق سے استفادہ کرلے تو وہ بحران سے بسلامت نکل سکتی ہے لیکن اگر اس نے ضد پکڑی ، مظاہرین کو گرانے کا فیصلہ کیا تو ایسی صورت میں عوام آتش فشاں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ 
مشکل یہ ہے کہ پاسداران انقلاب کے قائدین اور ایران کی اعلیٰ مذہبی قیادت غرور میں مبتلا ہے۔ اسے یقین ہے کہ وہ جمہوریہ ایران کو علاقائی شہنشاہیئت میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی طاقتوں سے ٹکر لے سکتے ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ میں عالمی طاقتوں کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ وہ سعودی عرب کی ناکہ بندی کرسکتے ہیں۔ وہ اسرائیل کو دھمکا سکتے ہیں۔ وہ بیک وقت کئی جنگیں لڑ سکتے ہیں۔ یہ سوچ غرور کے مارے ان لوگوں کی ہے جو ایرانی طاقت کے حدود اربعہ کو نظر انداز کررہے ہیں۔ وہ ایسے ملک کی پوزیشن سے آنکھیں موند رہے ہیں جس کے باشندے مشکلات سے دوچار ہیں اور جس کی معیشت علاقے کی کمزور ترین معیشت کے درجے پر آچکی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: