Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کم عمر مبلغ سے مبینہ قاتل تک، سڈنی کے حملہ آور نوید اکرم کے بارے میں نئی معلومات

نوید اکرم کو عربی تجوید پڑھانے والے آدم اسماعیل نے ویڈیو بیان میں حملے کی مذمت کی۔ فوٹو: اے ایف پی
سڈنی کے نوجوان حملہ آور نوید اکرم کم عمری میں ہی مذہبی رجحانات کا حامل تھا اور اس حوالے سے اُن کی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سنہ 2019 میں سڈنی کے اسلامک کمیونٹی گروپ ’سٹریٹ دعوۃ موومنٹ‘ نے نوید اکرم کی ایسی ویڈیوز پوسٹ کی تھیں جن میں وہ نوجوانوں کو بارش میں کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ’آپ جہاں کہیں بھی ہیں اللہ کا پیغام پہنچائیں، خواہ بارش ہو رہی ہو، ژالہ باری ہو یا پھر آسمان صاف ہو۔‘
ایک اور ویڈیو بھی وہ دو لڑکوں سے کہہ رہے ہیں کہ نماز باقاعدگی سے پڑھا کریں۔
یہ ویڈیوز اب ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں۔
حکام اب اس امر کی تحقیق کر رہے ہیں کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے گزشتہ چھ برس میں وہ نوجوان جو عدم تشدد کی پرچارک کمیونٹی گروپ کے پمفلٹ تقسیم کرنے میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیتا تھا وہ آسٹریلیا میں دہائیوں میں ہونے والے بدترین قتل عام میں شامل ہوا۔
نوید اکرم اس وقت پولیس کے کڑے پہرے میں ہسپتال میں زیرِعلاج ہیں۔ اُن کو سکیورٹی اہلکاروں کی گولیاں لگی تھیں۔
حملہ آور نوجوان کو چھ برس قبل سنہ 2019 میں داعش سے تعلق کے شبے میں آسٹریلیا کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔ تاہم حکام کے مطابق اُس وقت نوید اکرم کے انتہا پسندانہ رجحانات نہیں تھے۔
آسٹریلیا کے وزیر داخلہ ٹونی بُرک نے بتایا کہ ’اس کے بعد کے برسوں میں کچھ تبدیل ہوا۔‘

نوید اکرم کے ایک سابق کلاس فیلو سٹیون لونگ نے بتایا کہ وہ ایک عام سے شخص تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

پولیس نے اتوار کو سڈنی کے ساحل پر یہودیوں کے تہوار میں فائرنگ کر کے 15 افراد کو قتل کرنے کے الزام میں 24 سالہ نوید اکرم کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا تھا۔ دوسرے حملہ آور اُن کے والد 50 سالہ ساجد اکرم کو پولیس نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

داعش کے نظریات سے متاثر

منگل کو آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ ممکنہ طور پر حملہ آور شدت پسند تنظیم داعش کی آئیڈیالوجی سے متاثر ہوئے۔ لیکن ان کے کوئی رابطے  نہیں ملے اور انہوں نے حملہ انفرادی طور پر کیا۔
پولیس نے بتایا تھا کہ سڈنی میں فائرنگ کے واقعے کے بعد حملہ آوروں کی کار سے داعش کا جھنڈا ملا تھا جو انہوں نے گھر پر بنایا تھا۔
پولیس کے مطابق باپ بیٹے نے گزشتہ ماہ نومبر میں فلپائن کا سفر کیا تھا جہاں داعش سے وابستہ مقامی گروپ موجود ہیں۔
فلپائن کے امیگریشن  بیورو کے ایک ترجمان نے بتایا کہ آسٹریلیا کے شہری نوید اکرم اپنے والد ساجد اکرم کے ہمراہ یکم نومبر کو منیلا پہنچے جو انڈین پاسپورٹ پر سفر کر رہے تھے۔
دونوں نے فلپائنی حکام کو بتایا کہ اُن کی  منزل مندانو جزیرے کا مرکزی شہر دواؤ ہے۔ یہ شہر اسلام پسند عسکری سرگرمیوں کے حوالے سے خبروں میں رہتا ہے۔
اس جزیرے پر سنہ 2017 میں فلپائن کی سکیورٹی فورسز اور داعش سے منسلک دو عسکری تنظیموں کے درمیان جھڑپوں میں ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے جبکہ لگ بھگ دس لاکھ بے گھر ہوئے۔ فلپائنی فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ گروپ اب بکھرے ہوئے اور کمزور ہو چکے ہیں۔
دونوں حملہ آوروں نے 28 نومبر کو فلپائن سے واپس آسٹریلیا کا سفر کیا تھا۔

پولیس کے مطابق باپ بیٹے نے گزشتہ ماہ نومبر میں فلپائن کا سفر کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

’کبھی کچھ غیرمعمولی نہیں کیا‘

آسٹریلیا کے مقامی میڈیا کے مطابق نوید اکرم ایک بے روزگار مستری تھا۔ اس نے سڈنی سے 30 کلومیٹر دور مضافاتی علاقے کبراماتا سے ہائی سکول تک تعلیم مکمل کی۔ یہ علاقہ اکرم خاندان کی بونیرگ میں واقع رہائش گاہ کے قریب ہے جہاں پولیس نے سڈنی حملے کے بعد چھاپہ مارا۔
نوید اکرم کے ایک سابق کلاس فیلو سٹیون لونگ نے ڈیلی میل کو بتایا کہ ’میں سو سال تک بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ وہ ایسا کرے گا۔‘
’وہ ایک اچھا انسان تھا۔ اُس نے کبھی کچھ غیرمعمولی نہیں کیا۔ اُس نے کبھی کلاس میں کسی کو ٹوکا تک نہیں تھا۔‘
نوید اکرم کو عربی تجوید اور قرآن پڑھانے والے آدم اسماعیل نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ ’میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تشدد کے اس فعل کی مذمت کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہر قرآن پڑھنے والا اس کو نہیں سمجھتا یا اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی نہیں گزارتا۔ اور یہی کچھ نوید اکرم والے معاملے میں دیکھا گیا۔‘

 

شیئر: