Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کی جائے،خواجہ آصف

    کراچی (صلاح الدین حیدر۔ بیورو چیف) پاکستان نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ  پاکستان کا اتحادی نہ دوست اور اب وقت آگیا ہے کہ اسلام آباد امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کرے۔ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ  واشنگٹن کو باور کرادیا ہے کہ دوستی اور اتحادی جیسے الفاظ استعمال کرنے سے  پہلے انکا مطلب سمجھ لیا جائے۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ امریکہ ہمارا یار نہیں بلکہ یار مار ہے اور اگر امریکہ نے جارحیت کی کوشش کی تو پوری پاکستانی قوم کی جانب سے متفقہ جواب دیا جائے گا۔ ٹرمپ یا امریکی انتظامیہ کے بیانات پر میرے ردعمل کی کوئی اہمیت نہیں۔میری کوئی اوقات نہیں ۔میں ایک عوامی نمائندہ ہوں۔خواجہ آصف کے نام کے ساتھ ایم این اے یا وزیرخارجہ لگا ہو تو اس ردعمل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔جب تک قیادت کی طرف سے منع نہیں کیا جاتا تب تک میری ٹویٹس اور بیانات ہماری حکومت کا بیان ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی فضائی حدود مفت استعمال کی، پرویز مشرف نے اپنا اقتدار مضبوط کرنے کی خاطر قوم کا مفاد بیچا، مشرف فخر سے کہتا ہے کہ اس نے کتنے بندے بیچے۔امریکہ کو شمسی اور جیکب آباد ایئر بیس مفت میں دیئے گئے ۔ اس کے پیسے پاکستان کو نہیں کسی اور کو ملے ہوں گے، حکمراں جب قومی مفادات کا سودا کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں تو وصولی کی جاتی ہے،ہم نے کبھی امریکہ سے نہیں پوچھا کہ ہماری زمینی و فضائی حدود سے کیا لے کر جارہا ہے، امریکا ہماری تما م باتیں بھول گیا لیکن ہماری ہر پائی کا آڈٹ کرتا ہے، جنرل مشرف پوری قوم کے ہاتھ پائوں باندھ گیا۔ آصف زرداری سے اس موضوع پر بہت باتیں ہوئی ہیں، ہمارے ہاتھ پاؤں کے ساتھ زبان بھی کھلی ہوئی ہے۔ میں نے امریکا کو ان کی سرزمین پر بیٹھ کر جواب دیا ہے، دبئی اور واشنگٹن میں بیٹھ کر ہزاروں ویزے امریکیوں کو جاری کیے گئے، ان لوگوں نے پاکستان میں متوازی انٹیلی جنس سیٹ اپ بنایا ، ابھی بھی ہماری سوسائٹی کی ہر سطح پر ان کی رسائی یا نفوذ ہے جسے ختم کرنے کیلئے بہت کچھ کیا گیا ہے، اس دور میں لگتا تھا پاکستانی سفیر نے اسٹیمپ جیب میں رکھی ہوتی تھی جو فوراً ویزے جاری کردیتے تھے، ملک کے مفادات پر سمجھوتہ کرنے والوں کو قوم معاف نہیں کرے گی۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جو کچھ میرے پاس ہے یہ اس قوم اور اللہ کی دین ہے، مجھے کوئی حق نہیں کہ اپنے عہدے کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کروں، جنہوں نے مفاد بیچا ان کی کیا اوقات تھی مجھے تو پھر بھی لوگ ووٹ دیتے ہیں، ملک کا مفاد بیچنے والے ایک فون کال پر لیٹ گئے اور ابھی تک لیٹے ہوئے ہیں۔ وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان تنہا نہیں کھڑا ہمارے ساتھ قابل اعتماد دوست کھڑے ہیں، سعودی عرب، چین ، روس اور ترکی ہمارے قابل اعتماد دوست ہیں، سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ باہمی تعلق بہت مضبوط ہے، کل روسی سفیر سے ملاقات ہوئی ان کے امریکا سے متعلق اپنے تحفظات ہیں۔ اگر میں سرخ لکیر کو عبور کرتا ہوں تو وزیراعظم مجھے محتاط رویہ اختیار کرنے کا کہہ سکتے ہیں اور میں اس کی تعمیل کروں گا، حکومت کی طرف سے میرے بیان کی تردید نہیں آتی یا مجھے کوئی سرزنش نہیں ہوتی تو میں اسے اپنی حکومت کا اظہار سمجھتا ہوں۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نواز شریف 29سال سے سیاست میں میرے قائد ہیں، ذاتی طور پر بھی میری ان سے پچاس سال کی نیازمندی ہے، اگر میرے خیالات اور نواز شریف کے بیانات میں مماثلت ہے تو یہ فطری عمل ہے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کیخلاف امریکا کا جار حا نہ رویہ قومی مسئلہ ہے، یہ پاکستان کی غیرت، وقار اور حمیت کا مسئلہ ہے ، اس پر ہر پاکستانی کا جذبہ یکساں ہوا تو کوئی پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گا۔ 21 اگست کے بعد امریکہ کی طرف سے تسلسل کے ساتھ پاکستان مخالف بیانات آرہے ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ڈیوڈ پیٹریاس نے ایک یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ پاکستان کوئی ڈبل گیم کررہا ہو، مک ماسٹر نے مجھ سے کہا کہ پاکستان وعدے کرتا ہے لیکن پورے نہیں کرتا ،ہمارا اور آپ کا اعتماد کا لیول بہت کم ہے، میں نے بھی مک ماسٹر کو کہا کہ آپ کا اور ہمارا کوئی اعتماد کا لیول نہیں ہے۔ آپ نے پچھلے 20،30 سال میں جو کچھ ہمارے ساتھ کیا اس کے بعد ہمارا آپ پر کس طرح اعتماد برقرار رہ سکتا ہے، یہ ملاقات 20،25 منٹ کی میٹنگ تھی لیکن اس گفتگو کے نتیجے میں جلدختم ہوگئی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان 1960ء سے امریکی مفادات کی وفاداری کررہا اور تعلق نبھارہا ہے ، اس وقت بڈابیر پشاور سے امریکی طیارہ اڑا جسے روس نے مارا گرایا اورپھر پاکستان پر لال نشان لگادیا، سوویت یونین پاکستان کا دشمن نہیں تھا لیکن ہم نے اس کیخلاف جنگ کو جہاد کا رنگ دیا، اس جنگ میں پیسہ بے تحاشا آیا لیکن پاکستان کو صرف نقصان ہوا، ہم آج تک اس نقصان کا ملبہ صاف نہیں کرسکے ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بیجنگ میں پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں سنجیدگی نظر آئی۔پاکستان نے پچھلے چار سال سے دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے، ہم نے اس جنگ میں دو تین بلین ڈالر اپنی جیب سے لگایاہے، پاکستان دہشتگردی کیخلاف کامیاب جنگ لڑسکتا ہے تو امریکا اتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں کیوں نہیں کامیاب ہوسکا، امریکا اور اتحادی فورسز کی افغانستان میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے توا ن کے مقاصد پر شک ہوتا ہے، اتحادی فورسز کے باوجود افغانستان میں کس طرح نوہزار ٹن افیون پیدا ہورہی ہے اور 130بلین ڈالر کی ہیروئن بنا کر پوری دنیا کو بیچی جارہی ہے، افغانستان میں 43 فیصد علاقہ کیوں طالبان کے قبضے میں ہے۔ امریکہ اپنی پرفارمنس شیٹ بنائے جس کا ہماری کار کر د گی سے موازنہ کیا جائے، اس کے بعد دنیا سوچے کہ امریکا کے مقاصد کیا ہیں،پاکستانی افواج نے دہشتگردی کیخلاف اپنے مقاصد کو بہت حد تک حاصل کیا ہے، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاک فوج کے تھری اسٹار جنرل سے لے کر جواں سال لیفٹیننٹ شہید ہوئے ہیں۔ وزیر خارجہ خواجہ ا?صف نے کہا کہ امریکا پاکستانی قوم اور ہماری قربانیوں کی توہین کررہا ہے، افغانستان کی دونوں جنگوں میں امریکا کا ساتھ دینے سے انہیں فائدہ پاکستان کو نقصان ہوا، امریکا کے ساتھ تعلقات میں وقار پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ امریکہ کو پاکستان کو جھوٹا یا دھوکے باز کہنے کی جرات نہیں ہونی چاہئے ، اپاکستان کی قربانیوں کی توہین کے بعد امریکا ہمار ااتحادی اور دوست نہیں ہے، اتحادی اس قسم کی زبان استعمال نہیں کرتے ہیں، پاکستان کو مریکا کے ساتھ تعلقات پر مکمل نظرثانی کرنی چاہئے، اگر اس تعلق میں وقار اور عزت نہیں تو اس پر ضرور نظرثانی کی جائے۔ امریکا کے ساتھ انگیجمنٹ میں کوئی عار نہیں ہے۔ امریکا کو اتحادی کہنے سے پہلے اتحادی لفظ کا مطلب سمجھنا ہوگا۔امریکا کو دوست کہنے سے قبل دوستی کے تقاضے سمجھنے ہوں گے۔امریکا کا پاکستان کے ساتھ رویہ کسی دوست یا اتحادی کا نہیں ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا نے پہلی دفعہ پاکستان کی امداد بند نہیں کی ہے، سیٹو اور سینٹو میں اتحادی ہونے کے باوجود 1965ء  اور 1971ء کی جنگوں کے بعد بھی پاکستان کی امداد بند کردی گئی تھی، پاکستان نے 10 سال امریکا کی جنگ لڑی لیکن اس کے بعد پریسلر ترمیم کر کے ہماری امداد بند کردی اور ایف سولہ طیاروں کی رقم بھی کھاگئے، امریکا نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ چھوڑا ہے۔ امریکا نے القدس کے ساتھ جو کیا وہ کوئی کلمہ گو برداشت نہیں کرسکتا ہے امریکا کا کیا مفاد یا دبائوتھا کہ یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کررہا ہے۔ امریکہ کو ایک ذمہ دار سپرپاور کی طرح رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ پاکستان خوددار قوم ہے ہم امریکی 200ملین ڈالر کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں۔

 

شیئر: