Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہر ذرے میں توحید کی شہادت

 کائنات کی ہر شے میں نظام قائم ہے ، پوری کائنات کا نظام ایک ہے ، یہ کائنات کے ایک خالق ہونے کا حتمی نتیجہ ہے
* * * *ڈاکٹرمحمد لئیق اللہ خان ۔ جدہ* * *
 علامہ اقبال رحمہ اللہؒ نے سچ فرمایا تھا:
    "اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیمات کا آغاز لاالٰہ الا اللہ کے پیغام سے کیا ہے۔اسلامی تعلیمات کا محور توحید کا عقیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان میں تمام انسانوں کا مفاد مضمر ہے۔ یہ عقیدہ سارے انسانوں کا شیرازہ جمع کرتا ہے۔ یہ انسانوں کے وقار کا محافظ ہے ۔ یہ انسانوں کو ان جیسے دیگر انسانوں کی فلاحی سے نجات دلاتا ہے ، یہ انسانوں کوحیوانات ،جمادات اور نفسانی خواہشات کی بندشوں سے بچاتا ہے۔ "
    بہت سے فلاسفہ اور سائنسداں ، اللہ تعالیٰ کی توحید کے موضوع پر غور وفکر کرتے رہے ہیں۔سائنس کے مختلف شعبوں کے مطالعے سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے راز بے نقاب ہورہے ہیں۔ ایمان باللہ مستحکم ہورہا ہے۔ سائنس کا علم ، اللہ کی توحید کے رموز کو واشگاف کررہا ہے ۔ سائنس کا علم خدا شناسی کا جوہر پیدا کررہا ہے ۔ قدرت کے اسرار کو منکشف کررہا ہے۔ اللہ کے ایک ہونے کا عقیدہ راسخ کررہا ہے۔ ہر مسلمان ، کسی دلیل کے بغیر اللہ کو ایک ماننے کا پابند ہے لیکن سائنسی حقائق کا مطالعہ اور سائنسی دلائل سے اللہ کی توحید کا اثبات ، انسان کو اللہ سے زیادہ قریب کردیتا ہے۔ توحید کے دلائل کا علم اللہ کی ہستی پر ایمان کو کامل اور پختہ کردیتا ہے۔ توحید پر علمی دلائل کی تلاش سے ایمان باللہ کمزور نہیں ہوتا، دین سے تنفر نہیں پیدا ہوتا بلکہ علمی سائنسی حقائق ودلائل سے ایمان باللہ مدلل اور بامعنی ہوجاتا ہے۔ ایمان سطحی نہیں رہتا بلکہ گہرا ہوجاتا ہے ، جدید علم پوری کائنات کے ایک نظام کے ماتحت ہونے کے دلائل میں ہر روز اضافہ کررہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دہریئے بھی جو خدا کے وجود کے منکر ہیں اور جو روح کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ان کی عقلیں بھی علمی مشاہدات کی وجہ سے اللہ کے ایک ہونے کے عقیدے کے حوالے سے زیروزبر ہونے لگی ہیں۔
    مصر کی معروف قومی یونیورسٹی جامعہ عین شمس میں طبعی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر منصور محمد حسب النبی نے اپنے ایک خصوصی مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ سائنسی مشاہدات، فلسفیانہ افکار اور علمی دلائل "توحید الرب" کا اقرار کرتے ہیں۔ پروفیسر موصوف قرآن کریم اور علم جدید کے نام سے انگریزی اور عربی زبانوں میں بڑی معتبر کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ انگریزی میں اُن کی کتاب کانام"The Glorious Quran & Modern Science"ہے۔
     پروفیسر محترم اکتوبر 1987ء کے دوران اسلام آباد میں قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز پر ہونیوالی کانفرنس اور دسمبر 1989ء میں رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت مکہ مکرمہ میں ہونیوالے سیمینار میں بھی شرکت کرچکے ہیں۔
    "الکون" اور "الاعجاز العلمی للقرآن" ان کی بڑی اہم کتاب ہے۔
    اللہ کی توحید کے قرآنی د لائل:
     پروفیسر منصور لکھتے ہیں:
    "اللہ تعالیٰ کی توحید کا عقیدہ ، اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک ہے۔ اس کے بموجب انسان کایہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے ذات، اسماء وہ اپنی وصفات اور حقوق میں منفرد یکتا اور بے مثال ہے۔یہ تسلیم کرے کہ ہر قسم کی عبادت کا مستحق صرف اللہ ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کا استحقاق نہیں رکھتا۔ یہ عقیدہ رکھے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق و مالک اللہ ہی ہے۔ وہی سب کو روزی دیتا ہے، کائنات کی سلطنت میں کوئی بھی کسی بھی شکل میں اس کا شریک نہیں ۔ اللہ کے اسمائے حسنیٰ اور اس کی بیان کردہ صفات پر ایمان رکھے۔"
    توحید کامل ہر ممکن ایمان کا عقیدہ بڑا فائدے مند ہے۔ یہ عقیدہ انسانوں کو ایک اللہ پر جمع کرتا ہے۔ یہ عقیدہ تمام انسانوں کو ایک چھت دیتا ہے۔یہ عقیدہ تمام لوگوں کو انسانی اخوت کے نظام سے مربوط کردیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک اللہ کے بجائے مختلف خداؤںپر ایمان کا عقیدہ ،تفرقہ وانتشار کا باعث بنتا ہے۔ اس سے اندھا مذہبی تعصب جنم لیتا ہے اس سے کائنات کا نظام بگڑتا ہے اور یہ انسانوں کو گھاٹے میں ڈال دیتا ہے۔
    توحید کا عقیدہ انسانوں کو غیر اللہ کی بندگی سے آزاد کرتا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے جھکنے پر مجبورنہیں ہوتا،انسانوں کی غلامی ذلت و خواری کا باعث بنتی ہے،طبقاتی نظام پیدا کرتا ہے۔ توحید کا عقیدہ انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ دنیا کی تمام مخلوقات وہ حیوانات ہوں ، نباتات یا جمادات ہوں ، انسانوں کیلئے مسخر ہیں۔ انسان کسی کے بھی آگے جھکنے کا پابند نہیں۔ توحید کا عقیدہ مسلمانوں کو سربلندی ، وقار اور جرأت سے سرفراز کرتا ہے۔جب مسلمان کا یہ عقیدہ ہوکہ اس دنیا میں بھلائی اور برائی کا مالک اللہ کے سوا کوئی نہیں تو اس کا سرکسی کے آگے نہیں جھکتا۔سورہ التوبہ کی آیت 51میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    قل لن یصیبناالا ماکتب اللہ لنا۔
    "ان سے کہو ہمیں ہرگز کوئی برائی یا بھلائی نہیں پہنچتی مگر وہ جو اس نے ہمارے لئے لکھ دی ہے۔"
    عقل توحید کی گواہی د یتی ہے:
    اللہ کی توحید کی گواہی عقل بھی دیتی ہے۔ کئی خداؤں کے عقیدے کا برملا اظہار کرنے والے بھی ایک ہی اللہ کا سہارا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر تثلیث کا عقیدہ رکھنے والے عیسائی ہیں۔ وہ جب اپنے اس عقیدے کو عقل کی کسوٹی پر رکھ کرپرکھتے ہیں تو الجھن محسوس کرتے ہیں ، اس الجھن کو دور کرنے کیلئے وہ توحید کی آغوش میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کیلئے وہ فلسفیانہ موشگافی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ باپ بیٹا اور روح القدس میںایک خدا ہے۔ اس طرح عیسائی حضرات توحید کا اقرار کرتے ہیں ، عہد قدیم کے لوگ کئی خداؤں کے پرستار تھے لیکن تمام خداؤں کا خدا سب سے بڑے خدا کو تسلیم کیا کرتے تھے۔
    قرآن کریم نے اللہ کی توحید کا عقیدہ عقل و منطق کے ذریعے ثابت کیا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کائنات کا خالق اور اس کا نظام چلانے والا ایک ہی ہوسکتا ہے وگرنہ کائنات کا نظام نہیں چل سکتا۔ ایک اللہ کے عقیدہ کو ایمان واسلام کیلئے ضروری بتاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
          قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد۔
    "کہو!وہ اللہ یکتاہے، سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ۔"
    سورہ قصص، آیت 88 میں توحید کا عقیدہ اجاگر کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ توحید اسلام کی اساس ہے۔
     ولا تدع مع اللہ الھا آخر لا الٰہ الا ھو کل شئی ھالک الا وجھہ۔
    "اوراللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ پکارواس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، ہر چیز ہلاک ہونیوالی ہے  سوائے اس ذات کے۔"
    اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی دلیل یہ کہہ کرد ی ہے:
     ولہ من فی السمٰوات والارض ومن عندہ لایستکبرون عن عبادتہ ولا یستحسرون ، یسبحون اللیل والنھارلایفترون ام اتخذواالٰہۃمن الارض ھم ینشرون لوکان فیھما اٰلھۃ الا اللہ لفسدتا فسبحٰن اللہ رب العرش عما یصفون( الانبیاء  19-22)۔
    "زمین اور آسمانوں میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے اور جو فرشتے اللہ کے پاس ہیں وہ نہ خود کو بڑا سمجھ کر اسکی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں ، شب و روزاس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ، دم نہیں لیتے۔ کیا ان لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ (بے جان کو جان بخش کر) اٹھاکھڑا کرتے ہوں ،اگر آسمان وزمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین و آسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا، پس پاک ہے اللہ رب العرش ان باتوں سے جو یہ لوگ بنارہے ہیں۔"
    ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سادہ زبان میں یہ واضح کیا ہے کہ اگر کسی گھر کے2مالک ہوں تو اس کا نظام بھی بخیرت نہیں چل سکتا ،کائنات کا پورانظام ، زمین سے لیکر سیاروںتک ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے ۔ اگر اس کائنات کے خالق و مالک ایک سے زائد ہوتے توبقیہ سے مطلق العنان فرمانروا ہوتے تو کائنات کا نظام ایک لمحے کیلئے بھی قائم نہ رہتا اور بہت سارے خداؤں میں ٹکراؤ سے کائنات کا نظام پاش پاش ہوکر رہ جاتا ۔چونکہ کائنات کی ہر شے میں نظام قائم ہے ، پوری کائنات کا نظام ایک ہے ، یہ کائنات کے ایک خالق ہونے کا حتمی نتیجہ ہے۔ قرآن کا اس بات پر بڑا زور ہے کہ کائنات کے نظام میں یکسانیت کی وجہ سے کائنات میں بگاڑ نہیں ہوا ۔ اس کا انحصار ایک سورج پر یہ کہہ کر کیا گیا ہے:
     مااتخذاللہ من ولدوماکان معہ من الٰہ اذا لذھب کل الٰہ بما خلق ولعلابعضھم علیٰ بعض سبحٰن اللہ عما یصفون(المومنون 91)۔
    "اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لیکر الگ ہوجاتا اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا ، پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔"
    اسی سے ملتی جلتی یہ مثال ہے کہ ہر ریاست کا ایک ہی سربراہ ہوتا ہے اور ہر گاڑی کا ایک ہی ڈرائیور ہوتا ہے۔ اگر زمین و آسمان اور ان کے درمیان موجو ددنیاؤں پر مشتمل کائنات کا خالق ایک نہ ہوتو کیا ہوتا؟ اس کا جواب اللہ نے یہ کہہ کر دیا ہے’’لوکان فیھما آلھۃ الا اللہ لفسدتا‘‘  اللہ کی توحید کا اس سے زیادہ طاقتورثبوت کوئی اور نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر درجے کی عقل رکھنے والوں کیلئے یہ سادہ ثبوت بہت کافی ہے ۔
    فلسفہ بھی توحید کا حامی:
    فلسفی حضرات دریافت کرتے ہیں کہ اگر ہم چند خداؤں کا وجود فرض کریں تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک سب کچھ تن تنہا کرنے پر قادر ہوگا؟ یا ایسا کرنے سے قاصر ہوگا؟ اس کے جواب میں 2ہی باتیں کہی جاسکتی ہیں اور ہر صورت سے اللہ کی توحید ثابت ہوتی ہے۔
    پہلی بات تو یہی کہ اگر مفروضہ خدا سارے کام تن تنہا خود انجام دے سکتا ہے تو ایسی حالت میں ایک سے زائد خداؤں کا کیا فائدہ ہوگا؟
    دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ خدا سارے کام تن تنہاانجام نہیں دے سکتا اور اسے اپنے کام انجام دینے کیلئے دوخداؤں کی مدد درکار ہوگی۔ اگر ایسا ہوگا تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ بہت سارے خداؤں میں سے ہر خدا درجہ الوہیئت سے کمتر ہے جبکہ خدا کو قادر مطلق اور ہرلحاظ سے کامل ہونا چاہئے۔
    حاصل کلام یہ کہ "اللہ "ایک اور وحدہ لاشریک لہ ہونا چاہئے۔ خدا تو وہی ہوگا جس کی قدرت محدود نہ ہوبلکہ لامحدود ہو۔
    ہر سمجھدار انسان اس بات سے اتفاق کریگا کہ معبود وہی ہستی ہوسکتی ہے جو کامل ہو اور قادر مطلق ہو۔ کوئی بھی انسان کامل ہستی کے سوا کسی اور پر ایمان لانا پسند نہیں کرسکتا اور کامل مطلق ہستی وہی ہوگی جو لامحدود قدرت کی مالک ہو اور کمال مطلق کی صفات رکھتی ہو۔ ایسی ہستی جس کااحاطہ انسان کی محدود عقل کرسکتی ہو، وہ معبود نہیں بن سکتی ، وہ (الٰہ ) نہیں ہوسکتی۔

شیئر: