Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیما کے الفاظ کی سحرانگیزی،” بکھرنے سے ذرا پہلے“

 نسیم خان سیما نے شعر و سخن کے راستوں پر اپنے قدموں کے نشان ثبت کئے
ایوب صابر۔ سیالکوٹ
جب وجود کے اندر جھکڑ چلتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ بکھر گیا ۔ بکھرنے سے پہلے کی گھٹن ختم ہو جاتی ہے لیکن جو بکھر چکا ہے اُ س کے سمیٹنے میں زمانے لگ جاتے ہیں ۔ بکھرنے سے ذرا پہلے خود کو سمیٹ کر رکھنا بھی ایک کربناک مرحلہ ہوتا ہے۔ جب نگاہیں بار بار دروازے کی طرف اُٹھتی ہیں کہ کوئی اپنا دستک دے گا اور مجھے بکھرنے سے پہلے سمیٹ لے گا۔ یہی کشمکش زندگی کی روانی ہے۔ شاعری بھی بکھرے ہوئے خیالات کو قرطاس پر سمیٹ کر رکھنے کا نام ہے۔ الفاظ کی ایک ساحرہ نامور شاعرہ و ادیبہ نسیم خان سیما نے اپنے شعری مجموعہ کلام ”بکھرنے سے ذرا پہلے“ میں اپنے فن کا وہ اظہار کیا ہے کہ قاری یاسامع دم بخود ہو کر رہ جاتا ہے۔ 
   نسیم خان سیماکا تعلق پاکستان کے خوبصورت صنعتی و علمی شہر فیصل آباد سے ہے ۔ انہیں شاعری اور نثر پر یکساں عبور حاصل ہے۔ شاعری میں سب سے بڑا کمال اپنا انداز ہوتا ہے۔ نسیم خان سیما نے دوسروں کے نقش ِ پا تلاش کرنے کی بجائے شعر و سخن کے راستوں پر اپنے قدموں کے نشان ثبت کئے ہیں۔ اُن کی شاعری صرف غم ِ دوراں کے گرد نہیں گھومتی بلکہ غمِ جاناں سے بھی پوری طرح آشناہے۔ وہ جانتی ہیں کہ بکھرنے سے پہلے جس کا نام بے ساختہ لبوں پر آ جائے وہی آ کر تھامے گا تو اندر کا طوفان رک جائے گا۔ اِسی خیال کو ایک مقام پر انہوں نے اس طرح رقم کیا ہے :
دُعاﺅں نے اثر پایا بکھرنے سے ذرا پہلے
کوئی ابرِ کرم چھایا بکھرنے سے ذرا پہلے
کسی کے ہجر کا صدمہ بنا تھا آبِ غم شاید
اور اِن آنکھوں سے ٹپکا تھا بکھرنے سے ذرا پہلے
جہاں بھر سے تعلق تھا محبت تھی مگر ہمدم
لبوں پر نام تیرا تھا بکھرنے سے ذرا پہلے
جب محبت میں دھوکے ملیں تو دل چاہتا ہے میں ہوا میں تحلیل ہو کر اپنا وجود کھو دوں کیونکہ زندگی کے معنی ہی بدل جاتے ہیں۔ کبھی ایسے میں لبوں پر شکوہ بھی آتا ہے کہ مجھ سے دور جانے والے تجھے اپنا دامن چُھڑا کے کیا ملا ۔ ایسے میں بے اختیار ہونٹوں پر ایسے اشعار نالے بن کر پھوٹ پڑتے ہیں ۔ ذرا یہ انداز بھی دیکھئے:
مزید پڑھئے:یہ کیا شبنم کا قطرہ کہہ گیا ہے::سمندر تلملا کر رہ گیا ہے
محبت میں بہت کھائے ہیں دھوکے
بکھرنے سے مجھے کوئی نہ روکے
چُھڑا کے ہاتھ جانے والے تجھ کو
ملا ہے کیا مری پلکیں بھگو کے
گزر تیرا نہیں ہوتا ادھر سے
گلی میں اب نہیں سجتے جھروکے
  نسیم خان سیما اپنے اشعار میں ایسا انداز اپنا لیتی ہیں کہ اِن کی انفرادیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ کبھی شکوہ بھی کرتی ہیں تو اس انداز میں کہ جداگانہ اسلوب کا رنگ واضح ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آنکھ سے نکلنے والا پانی کس دریا سے نہر نکال کر پلکوں تک لایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک قدم آگے بڑھ کر سوال کرتی ہیں کہ مالی تو زمین میں پھول کا بیج ڈالتا ہے، یہ پھول کے ساتھ کانٹے کہاں سے اُگ آتے ہیں اور جب پھول کو چھونے کے لئے ہاتھ بڑھاﺅ تو ہاتھ کانٹوں سے زخمی ہو جاتے ہیں۔ یہ اشعار اِسی کی غمازی کر رہے ہیں ۔ ذرا تیور دیکھئے:
کوئی سائنسدان ملاتو پوچھوں گی 
آنکھ کا پانی کس دریا سے آتا ہے
کانٹے اس کے ساتھ میں کیوں اُگ آتے ہیں
مالی تو گلشن میں پھول کھلاتا ہے
دل کی باتوں میں کیا آنا سیما جی
دل تو جھوٹے سچے خواب دکھاتا ہے 
اس کائنات میں ہر شے کا محافظ اور پرودگار صرف اللہ تعالیٰ ہے جو پتھر کے پیٹ میں پائے جانے والے کیڑے کو بھی رزق پہنچاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر بچپن میں کسی کا والدفوت ہوجائے تو بھی وہ بھوکا نہیں رہتاکیونکہ رب کائنات اُس کے لئے رزق کا بندوبست فرماتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ماضی کو سنہرا دور سمجھتا ہے اور اُس کے لوٹ کے آنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کرتا ہے۔ ایسے میں نسیم خان سیمابھی اُن لوگوں کی ترجمان بن کر اپنی شاعری کے ذریعے اُن کے جذبات کا اظہار کرتی ہیں ۔ ذرا انداز دیکھئے:
ایسے لوگوں کا بھی ہوتا ہے خدا رکھوالا 
جلد مر جاتے ہیں جس گھر کے کمانے والے
تُو ہمیں اپنا بنا لے یا جھڑک دے لیکن
تیری دہلیز سے اُٹھ کر نہیں جانے والے
نسیم خان سیما جانتی ہیں کہ سچ کی خاطر سقراط نے زہر کا پیالا پی کر ایک روایت قائم تھی کہ سچ کو بچانے کے لئے اپنی جان کی پروا نہیں کی جاتی۔ اب یہ رسم چل پڑی ہے کہ صاف گوئی سے کام لینے والوںپر عرصہءحیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ محاوروں کی زبان میں شعر کہنا ایک خوبصورت روایت ہے۔یہاں انہوں نے محاورے کا خوب استعمال کیا ہے۔ ذرا اس پہلو کو بھی دیکھئے :
انعام صاف گوئی کا دنیا نے دے دیا
انعام یہ کہ زہر پلایا گیا مجھے
سیما میں عام کیا ہوئی دنیا کے واسطے
دنیا نے پھر سمجھ لیا آ یا گیا مجھے
نسیم خان سیما کو غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن پر عبور حاصل ہے۔ ”بکھرنے سے ذرا پہلے“ سے ایک نظم کے چند اشعار پیش کر رہا ہوں، جس میں اداسی اور خواہش کا دلنشیں اندا ز میں ذکر کیا گیا ہے: 
”ہوائے شام“
تُو اُس شوخ کے گاﺅں کی جانب کو رواں ہے
سندیسہ دُکھ بھر ے دل کا
اُسی کے نام لیتی جا
اُسے کہنا 
کہ ویسے تو 
جدائی کا ہر اک موسم ہمیں آنسو رُلاتا ہے 
مگر یہ جو دسمبر ہے
بہت بے چین کرتا ہے
یہ سب حوالے نسیم خان سیماکو جدید لہجے اور نئے دور کی نمائندہ شاعرہ ثابت کرتے ہیں۔ وہ اپنی کالم نگاری کے حوالے سے بھی اپنا ایک منفرد مقام حاصل کر چکی ہیں۔ ہماری دُعا ہے کہ اُن کا قلم رواں رہے،آمین۔ 
 

شیئر: